کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 127
((أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ﴿1﴾ فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ ﴿2﴾ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ)) کیا تونےاس شخص کو دیکھا جو جھٹلاتا ہے ارتکاردولت کی سزا کو۔ یہی ہےجو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو خود کھانا کھلانا تو درکناراس کی ترغیب بھی نہیں دیتا۔ ایک دوسرے کی ضد میں، ایک دوسرے کے ساتھ حریفانہ کشمکش میں ہم نے حقیقتوں کا چہرہ مسخ کیا۔ ہم نے اس انقلاب کا حلیہ بگاڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرےکو معاشی اعتبار سے شدت سے جھنجوڑا اور اس انقلاب کا آغاز اپنی ذات سے کیا۔ لوح بھی تو، قلم بھی تو ،تیرا وجود الکتاب آغاز اپنی ذات سے کیا اسباب راحت اور اسباب تعیش کا تو وہاں گزر نہ تھا، اپنی بنیادی ضروریات زندگی بھی معاشرے کے حوالے کردیں۔ خود فقر و فاقہ کی سختیاں جھیلتے رہے اور غریبوں مسکینوں اور بے نواؤں کی چارہ سازی کرتے رہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں پر چکی چلانے سےگٹے پڑگئے تھے، خود جھاڑو دیتی تھیں اور گرد اُڑ کر ان کے کپڑوں پر پڑتی تھی۔ خود پانی بھرتی تھیں اور مشکیزے کے پٹے کے نشان ان کے کندھوں پر پڑگئے تھے۔ ایک دن اپنے بابا سے خادم مانگا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اتَّقي الله يا فاطمةُ ، وأَدِّي فريضةَ ربِّكِ ، واعملي عَمَلَ أهلِكِ ، هو خَيْرٌ لَكِ مِن خَادِمٍ)) (اے فاطمہ اللہ سے ڈرتی رہو، اپنے رب کے فرائض ادا کرتی رہو اور اپنے گھروالوں کے کام کاج میں لگی رہو۔ خادم ہونے سے یہ زندگی جو تم بسر کر رہی ہو