کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 126
کی گئی۔ اگر ابتدائی مکی سورتوں کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ابتدائی مرحلے میں جہاں نماز کی تلقین کی گئی ہے، اللہ سے تعلق جوڑنے کی ترغیب دی گئی، معاشی انقلاب کا آغازبھی اسی مرحلے میں ہو گیا تھا۔
سورۃحمزہ مکی سورت ہے۔ اس کا آغاز یوں ہوتا ہے:
((وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴿1﴾ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ ﴿2﴾ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ ﴿3﴾ كَلَّا ۖ لَيُنبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ))
ہلاکت ہے ہر طعنہ زنی اور عیب چینی کرنے والے کے لیے جس نے مال سمیٹا اور گن گن کر(تجوریوں میں)رکھا۔ اس کا گمان ہے کہ اس کا مال اس کے ساتھ سدارے گا۔ ہرگز نہیں۔ ہڈیوں کو چٹخادینے والی دوزخ اسے جھونک دیا جائےگا۔
سورۃ تکاثر میں دیکھیے:
((أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿1﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿2﴾ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ))
مال کی بہتات کی ہوس نے تمھیں غافل کردیا ہے اور یہ ہوس تمھیں مرتےدم تک لگی رہتی ہے۔ ہوش کرو۔ اس کا انجام تمھیں بہت جلد معلوم ہو جائےگا۔
ابولہب بہت مال دار آدمی تھا۔ انقلاب کے ابتدائی مکی دور میں اس کا نام لیکراعلان کیا گیا:
((تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ﴿1﴾ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ))
ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوا۔ اس کا مال اور دولت جو اس نے سمیٹی تھی، اس کے کام نہ آسکی۔
پھر سورہ ماعون ملاحظہ فرمائیے: