کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 119
چھا گئی ہے۔ ایک ایسی قساوت دلو ں پر طاری ہے کہ ان تباہیوں اوربربادیوں کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ بعض اتفاقات ہیں جو اس دُنیا میں رونما ہوتے ہیں۔ خدا کہتا ہے یہ محض اتفاقات نہیں ہیں۔ ((فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ))ہم نے اُن کی بداعمالیوں کی پاداش میں انہیں چھاڑا ((وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ)) (خدا کی شان کے تو یہ شایاں نہ تھا کہ وہ بے سبب لوگوں پر ہلاکت اورتباہی لاتا،مگروہ خود اپنی جانوں پر پہیم ظلم ڈھاتے رہے)
وہ لوگ جن کے مزاج پر بہیمت کا غلبہ ہوتا ہے،ہمیشہ سے عذاب الٰہی کو اتفاق قراردیتے رہے ہیں۔
شیطان اُن کے جی میں وسوسے ڈالتا ہے کہ تم دانشور ہو۔ عبقری ہو عذاب وثواب توہمات کی باتیں ہیں اور بے وقوف لوگ ان توہمات کو مانتے ہیں۔
((قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ)) (البقرۃ:13)
(اُنہوں نے کہا کیا ہم ان باتوں کو مان جائیں جیسے یہ بے وقوف لوگ مانتے ہیں۔ سُن لو یہ لوگ خود بے وقوف ہیں مگرانہیں وقوف نہیں کہ وہ بیوقوف ہیں)
بعض لوگوں کی عقل موٹی ہوتی ہےاور اُنھیں احساس اور اعتراف ہوتا ہے کہ وہ ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہیں۔ اُن کی عاجزی اورفروتنی ان کےعیب پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ بعض لوگ بیوقوف ہوتے ہیں اور اُنہیں اپنے آپ پر دانشور اورعبقری ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ ایسے بیوقوفوں کی حالت بڑی مضحکہ خیز ہوتی ہے۔ خدا اس آیت میں یہ کہہ رہا ہے کہ یہ نام نہاد دانشور اُن بے وقوفوں میں سے جنہیں یہ وقوف بھی نہیں کہ وہ بے وقوف ہیں۔
اس ملک کے دانشوروں سے بھی جب ہم آج کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کا سقوط اللہ کاایک دردناک عذاب ہے تو وہ کہتے ہیں اس میں عذا ب کی کیا بات ہے؟قوموں کوکبھی فتح ہوتی ہے کبھی شکست ہوتی ہے۔
((بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ)) (المؤمنون:81)
تاریخ گواہی دیتی ہے کہ فراست ایمانی سے محروم انسان ہمیشہ سےایک جیسی باتیں کہتے رہے ہیں۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ہماری غفلت اور شقاوت شدید تر ہوگئی۔ ہم انفرادی اور اجتماعی بد اعمالیوں میں یوں چھوٹ ہوگئے ہیں۔ جیسے ہم خدا کی زد سے باہر ہوگئے ہوں یا جیسے اس ملک میں اللہ کا قانون