کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 117
اسی میں عاص کا خاتمہ ہوا۔ (ابن الاثیر ج2)
اسود بن مطلب اور اُس کے ساتھی جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو دیکھتے،آنکھیں مٹکاتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددُعافرمائی کہ اے اللہ اسود کو اس قابل نہ چھوڑ کہ یہ آنکھیں مٹکا سکے۔ اسود ایک کیکر کے درخت کے نیچے جاکر بیٹھا ہی تھا کہ اپنے لڑکوں کو آواز دی:
”مجھے بچاؤ! مجھے بچاؤ ! میری آنکھوں میں کوئی کانٹے چبھورہا ہے۔ “
لڑکوں نے کہا۔ ہمیں تو کوئی نظر نہیں آتا۔ اسود چلاتا رہا۔ مجھے بچاؤ،مجھے بچاؤ ،میری آنکھوں میں کوئی کانٹے چبھورہا ہے۔ یہ کہتے کہتے وہ اندھا ہوگیا۔ (ابن الاثیر ج2 ص 27)
اسود بن عبد یغوث حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔ اُسے اپنی عقل پر بڑا ناز تھا۔ سرمیں پھوڑے اورپھنسیاں نکلیں اور اسی تکلیف میں مرا۔ حارث بن قیس بھی سخت یا وہ گوتھا۔ ایسی بیماری ہوئی کہ منہ سے پاخانہ آتا تھا۔ اسی بیماری میں فوت ہوا۔ [1] یہ ہے تفصیل اس آیت کی۔
((إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا)) (الاحزاب:57)
حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایذا دینے والوں کی ہلاکت اور تباہی کی تفصیلات حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ،طبرانی اور بیہقی نے دی ہیں۔
عذاب کی انواع واقسام
جیسے اُس کی نوازشیں بے حدوحساب ہیں اُس کے عذاب کی قسمیں ہی بے شمار ہیں۔
وہ بڑا لطیف اور حکیم ہے۔ وہ اس کائنات کی جس شے کو چاہے عذاب میں بدل دے یہ ہوا جس سے انسان کے سانس کی آمدورفت جاری ہے وہ جب چاہتا ہے اس ہوا کو طوفان اور آندھی بنادیتا ہے۔
((وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ)) (الحاقه:6)
قومِ عاد كو زناٹے کی آندھی سے ہلاک کردیا گیا۔
((فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ)) (الحاقه:7)
(اس آندھی میں تم یوں انھیں پچھڑا ہوا دیکھو گے،گویا وہ کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہیں۔ )
یہ پانی جو بقائے حیات کے لیے ناگزیر ہے وہ جب چاہتے ہیں اسے طغیانیوں میں بدل دیتے
[1] ۔ ابن الاثیر ج 2ص 20