کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 114
یعنی میری بہشت میرے سینے میں ہے جوورود رحمت اور انوار الٰہی کے نزول سے پیدا ہوتی ہے۔ میں جہاں بیٹھ جاتا ہوں وہیں باغ وبہار ہوجاتی ہے۔ اگرروح کی یہاں تربیت نہ کی جائے اس کاتذکیہ نہ ہو اور وہ بداعمالیوں میں مبتلا ہوکر بیمار ہوجائے توروح آخرت میں بھی بیمار رہے گی۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں اس حقیقت پر روشنی ڈالتی ہیں، ((وَمَن كَانَ فِي هَٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلًا)) (بني اسرائيل:72) ”جو اس دنیا میں راہ نجات سے اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھاہوگا ،بلکہ اور زیادہ گم کردہ راہ ہوجائے گا“ یعنی رُوح کے ہدایت پانے اورصحت مند ہونے کا تعلق اعمال صالحہ سے ہے اور اعمال صالحہ کا تعلق دارالعمل سے ہے۔ جب دارالعمل سے انسان دارالجزاء میں منتقل ہوگیا تو اعمال کا سلسلہ بھی منقطع ہوا پھر روح کےلیے شفا پانا کیونکر ممکن رہا((إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ)) پس بد اعمالیوں سے جو عذاب روح پر طاری ہوتا ہے،وہ عذاب اس دنیا میں عالم برزخ میں اور آخرت میں مسلسل چلتا ہے۔ بد اعمالیوں کی سزا اس دُنیا میں بھی ہم کو بھگتنی پڑتی ہے اور آخرت کا عذاب تو دردناک ہے۔ قوم عاد نے جب ہود کی نافرمانی کی تواسی دنیا میں انہیں ملعون قراردیا گیا: ((وَأُتْبِعُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً)) (هود:60) ”اور اسی دنیا میں ان پر لعنتیں بھیجی گئیں“ وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اسی دُنیا میں خدا،ان پر لعنتیں بھیجتا ہے۔ ((إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا)) (الاحزاب:57) لعنت کی حقیقت لعنت کی حقیقت کیا ہے؟ ((لَعَنَهُ اللَّـهُ))کے معنی ہیں،اللہ نے اس پر لعنت کی یعنی اُسے اپنی رحمت سے دور کیا۔ جیسے مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح ہماری ارواح اللہ کی رحمت