کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 110
میں اپنی ان آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ملک کا یہ بچاکھچا حصہ جو باقی رہ گیا ہے ۔ اللہ کا عذاب اس پر بھی منڈلا رہا ہے۔ وہ عذاب جو عوام اور خواص کو یکساں تہس نہس کرتا ہے۔ وہ عذاب جس کی زد میں بڑے بڑے ذاکر اور صوفی بھی آجاتے ہیں۔ خدا فرشتو ں سے کہتا ہے کہ ان کو بھی پیٹو ان کے آس پاس ملک میں آگ لگی ہوئی تھی اور یہ مسجدوں اور گھروں میں آرام سے بیٹھے ذکر وفکر کی لذّتیں اُٹھارہے تھے۔ قرآن مجید نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ جب صورتحال ایسی ہوتو اس وقت عذاب سے بچنے کی کیا تدبیر ہے؟ اس ہمہ گیر عذاب سے وہ لوگ بچ سکیں گے جو خیر اور بھلائی کے سانچے میں اپنی زندگیاں ڈھال کر عوام اور حکام کو امربالمعروف کرتے ہیں۔ ۔ ۔ جونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے: ((وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُودًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا)) (هود:58) ((فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صَالِحًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ)) (هود:66) جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے ھود علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو بچالیا اور یہ ہماری رحمت کا تقاضا تھا۔ جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے صالح علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کو بچالیا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب فعال بن جائیں ہم سب کو چاہیے کہ اپنا دامن اڑس لیں اور کمر ہمت باندھیں اور اپنا وقت ،اپنی توانائی،اپنا مال،اپناجسم،اپنی جان سب کچھ اللہ کی راہ میں کھپادیں۔ ((وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين))