کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 109
تھپڑ رسید کرتے ہیں اور اُس کے قومی وجود کو نیست ونابود کردیتے ہیں ہماری پکڑ یکایک ہوتی ہے۔ ہم اُنہیں سوچنے کا بھی موقع نہیں دیتے کہ اُن پر کیا بیت گئی ہے؟
سقوط مشرقی پاکستان کے ہولناک اور ذلت آمیز حادثے سے ہم نے کوئی عبرت حاصل نہیں کی ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ جن کا مقصد قومی اناکو بیدار کرنا اور ملی کردار کی تعمیر کرنا تھا”اکڑ بکڑ“ ایسے الم غلم پروگراموں پر وقت برباد کررہے ہیں وہ لامقصدیت جو ہماری نئی پود میں پیدا ہوگئی ہے،ہمارے ذرائع ابلاغ اُسے تیز تر کررہے ہیں یاد رکھیے کہ رقص رقص وسرود اور طاؤس درباب کے ساتھ ان زخموں کو مندمل نہیں کیا جاسکتا۔
آپ یقین کیجئے کہ ہمارے غریب عوام بھوک بھول گئے ہیں۔ انہیں اپنی عریانی بھول گئی ہے۔ یہ زخم اتنے شدید اور اتنے گہرے ہیں کہ کوئی پائل کی کھٹک اور کوئی پازیب کی جھنکار اُن کا اندمال نہ کرسکے گی۔ ہمارے بعض دانشوروں اورسیاست دانوں نے کہا یہ ٹھیک ہے کہ ہمارا آدھا ملک چھن گیا ہے اور ہماری افواج دشمن کی قید میں ہیں مگرہم سے نوحہ گری نہیں ہوتی ہے نوحہ گری کے تو ہم بھی قائل نہیں لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کیا نوحہ گری اوررقص وسرود کے درمیان متانت اور سنجیدگی کے ساتھ ملک وملّت کی تعمیر میں اپنی تمام صلاحیتوں کو کھپا دینے کی کوئی راہ نہیں ہے؟
((فَمَالِ هَـٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا)) (النساء:78)
آہ!ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اتنی موٹی اور سیدھی بات بھی یہ نہیں سمجھتے ۔ حکیم الامت نے بجا کہاتھا۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے.
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہم پچیس برس مسلسل اور پیہم منافقت کی زندگی بسر کرتے رہے اور یہ ایک المیہ ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ہماری منافقت کے لبادے پہلے سے بھی زیادہ دبیز ہوگئے ہیں۔
رُخ پر نقاب مصلحتوں کے پڑے ہوئے
لب پر زمانہ سازی کی مہریں لگی ہوئیں
جیسے زبان ودل میں کوئی ربط ہی نہیں