کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 106
سُنا ہے،اُنہوں نے اسلام کا نام یحییٰ خان کی زبان سے سُنا،جوملک وملّت کو ذلّت اور ہلاکت کے غار میں دھکیلنے کے بعدبھی اپنی آخری تقریر میں اللہ اکبر اور لاالٰہ الا اللہ کہہ رہا تھا۔ وہ جو اس وقت بھی نشے میں دُھت تھا اور اس کی زبان بکلارہی تھی۔
آہ یہ ملک!اس میں پچیس بر س سے اسلام ،خدا،رسول ،جہاد ان سب لفظوں کوEXPLOIT کیا جارہاہے۔ ہماری نئی پود نے اسلام کی بات یاتو حکمرانوں کی زبان سے سنُی ہے یا اپنے محلے کے نیم خواندہ مولوی سے سنی ہے۔ اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اسلام یا توHALF EDUCATED ہونے کا نام ہے یا EXPLOITATION کا نام ہے۔ میں اس بارے میں نئی پود کو معذور سمجھتا ہوں۔ مُجرم ہم ہیں کہ اسلامی نظریہ حیات کے صحیح خط وخال اُن کے سامنے اُجاگر نہ کرسکے۔ ہرحادثہ جو اس کائنات میں رونما ہوتا ہے،ایک طالب علم کی حیثیت سے ہم قرآن مجید لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور آیات الٰہی کی روشنی میں اُس کی تعبیر ڈھونڈتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے سقوط پر جو آیتیں منطبق ہوتی ہیں وہ یہ ہیں۔ ہم یہ آیت کیوں نہیں پڑھتے:
((فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ)) (المائدہ :13)
قرآن کہتا ہے کہ بعض قومیں ایسی ہیں جو کہتی ہیں اے اللہ! تو ہمیں ایک خطۂ زمین عطا کر ہم اُس میں تیرے نظریہ حیات کو نافذ کریں گے۔ اور جب ہم انہیں خطہ زمین عطا کردیتے ہیں تو وہ ہم سے وعدہ شکنی کرتے ہیں اور آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ خُدا کہتا ہے:
((فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ))
اُن کی وعدہ شکنی کی پاداش میں ہم نے اسی دنیا میں اُن پر لعنتیں بھیجیں۔
((وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ))
اور ہم نے اُن کے دلو ں کو کٹھور بنادیا کہ خیر اور شرمیں تمیز کی صلاحیت ہی اُن سے اُچک لی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سقوطِ مشرقی پاکستان ایک عظیم المیہ ہے۔ لیکن اس سے بڑ ا المیہ یہ ہے کہ اس دھچکے کے بعد ہم بھی منافقت کے روگ سے شفایاب نہ ہوسکے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ روگ ہماری ہڈیوں میں سما گیا ہے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان پر ہمارے صحافیوں نے لکھا کہ:
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد