کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 105
بیت اللہ تو نہیں بن سکتا ہے۔ ہم نے جس نظریۂ حیات کو اپنانے کی خاطر اور جن قدروں کو پروان چڑھا نے کی خاطر عظیم قرُبانیاں دے کر یہ مُلک حاصل کیا تھا ،ہم نے اس ملک میں اُن قدروں کو نہایت بے دردی سے پامال کیا ا ور عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کی غرض سے ہرحکومت یہ اعلان کرتی رہی ہے۔ کہ ہمارا آئین قرآن وسنّت کے منافی نہیں ہوگا۔ فقرے کے تیور دیکھئے کس قدر منافقانہ ہیں؟ اگر جی میں کھوٹ نہ ہوتا تو اعلان کے الفاظ یوں ہوتے کہ: ”ہمارا آئین کتاب وسنت کے عین مطابق ہوگا۔ “ مشرقی پاکستان کا سقوط آزمائش نہیں،عذاب ہے پچیس سال کی مسلسل اور پیہم بداعمالیوں کی پاداش میں آدھا ملک ہم سے چھن گیا۔ جب مشرقی پاکستان کا سقوط ہوا تو اُس وقت بھی ہم نے اپنے آپ کو ا ور عوام کو دھوکا دیا۔ ہمارے ذرائع ابلاغ ریڈیو،ٹیلی ویژن نے کہا کہ یہ غزوہ اُحد ہوا ہے۔ یہ غزوہ حنین ہُوا ہے۔ یاد رکھیے کہ آزمائش کا تعلق مومنین قانتین سے ہے جنہیں عارضی طور پر بھٹی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تاکہ وہ کندن ہوکرنکلیں۔ قرآن مجید ابتلا کا لفظ اُن نفوس قدسیہ کے لیے بولتا ہے جنھوں نے معاشرے کی تطہیر کی تھی۔ ابتلا کا تعلق قرآنی نقطۂ نظر سے اُن لوگوں سے ہے جو نماز قائم کرتے ہیں،جو زکوٰۃ کا اجتماعی نظام قائم کرتے ہیں جو شراب خواری،زناکاری،سُودخواری،رشوت ستانی،ذخیرہ اندوزی ،بلیک مارکیٹنگ اور تمام اجتماعی بُرائیوں کا استیصال کرتے ہیں۔ چوری،زنا اور دوسری بداعمالیوں کی سزا احکام قرآنی کے مطابق دیتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ انبیاء او راُن کے پیروؤں کی ہزاروں برس کی تاریخ اس بات کو جھٹلاتی ہے کہ اللہ نے اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو کبھی یوں بین الاقوامی طور پر ذلیل کیا ہوکہ بیک وقت پُوری کائنات کے ذرائع ابلاغ سے اُس قوم کی ذلّت ورسوائی کا اعلان کیا گیا ہو۔ آدھا ملک چھین جائے اور 90 ہزار افراد کافروں اور بُت پرستوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اور ہم کہیں ،یہ غزوہ اُحد ہوا ہے۔ یہ نئی پود ۔ یہ نوجوان نسل۔ یہ غریب طالب علم۔ اُنہوں نے اپنے حکمرانوں کی زباں سے اسلام کا نام