کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 102
((مَا يَجِدُ الشَّهِيدُ مِنْ مَسِّ الْقَتْلِ، إِلَّا كَمَا يَجِدُ أَحَدُكُمْ مَسِّ الْقَرْصَةِ)) (ترمذی)
(شہید کو قتل ہوتے وقت ویسا ہی احساس ہوتا ہے جیسے تم میں سے کسی کو چیونٹی چھُو جائے تو وہ محسوس کرتا ہے)
بلکہ شہید کو ایسی لذت آتی ہے کہ دنیا و آخرت کی سب لذتیں شہادت کی لذت کے سامنے اُسے ہیچ معلوم ہوتی ہیں۔
یہ دوست کی خاطر کٹ مرنے کی سعادت یہ اُس کی خاطر مرمٹنے کا شرف ، یہ اُس کی راہ میں خون بہانے کی لذت ، یہ جاں سپاری و جانفروشی کی سعادت ۔ ۔ ۔ یہ وہ سعادت عظمیٰ انسان کے حصے میں آئی ہے کہ اس میں فرشتے بھی اس کے سہیم و شریک نہیں۔ یہ وہ سعادت ہے جس سے جبرائیل امین بھی محروم ہے۔ یہ وہ شرف ہے کہ اسرافیل و میکائیل بھی اس کے لذت شناس نہیں۔ وہ بھی تحقیق آدم کے وقت کہتے تھے:
((أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ)) (البقرة:30)
یعنی آدمی کو کیوں پیدا کرتے ہو، وہ رُوئے زمین پر فساد پھیلائے گا اور خونریزی کرے گا۔ ہم جو تیری تسبیح و تقدیس میں لگے ہیں۔ اب خدا اُنہیں یہ منظر بار بار دکھاتا ہے کہ دیکھو یہ وہی آدم ہے جس کی تخلیق پر تم معترض تھے۔ وہ میری دوستی کا حق اپنا لہو بہا کر ادا کر رہا ہے۔