کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 101
کا ایک دن متعین ہے۔ یہ اُس کا کرم ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی عزت کودوام بخشنے کے لیے شہادت کی مہریں اُن کے وجود پر مثبت کرتا ہے۔ وہ اگر اس کی راہ میں قتل نہ ہوتے تو ایڑیاں رگڑ رگڑکر مرتے۔ یہ اُس کی نوازش ہے کہ وہ انہیں دوستی کا حق ادا کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ مقتول ہو کر ان کی عزت اور چمکتی ہے۔ ؎ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کے لیے یہ مقدر ہوا کہ حق کی حمایت میں اُن کے لاشے خاک وخُوں میں تڑپیں حُسین رضی اللہ عنہ ابن فاطمہ رضی اللہ عنہما بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ کی مشیت ہوئی کہ اس کی خاطر اپنی جان نچھاور کرے۔ حسین رضی اللہ عنہ کی شان دائمی اور سرمدی طور پر سلامت رہ گئی۔ وہ مقتول ہو کر بھی معزز ہوا اور اس کے دشمن قاتل ہو کر بھی ذلیل ہوئے۔ اسی طرح اگر اُس کے دوست ہر حالت میں دنیوی نعمتوں سے بہرہ یاب ہوتے تو ہر خود غرض اور نفس پرست بھی اس کی دوستی کا مدعی ہوتا۔ اگر اس کے سب دوست دنیوی نعمتوں سے بہرہ یاب ہوتے تو دنیا والوں کے لیے اس کا ثبوت کیا ہوتا کہ اس کے دوست محض اس کی رضاکے طالب ہیں۔ وہ دنیا والوں کو یہ منظر دکھاتا ہے کہ اُس کے دوست گھاس پھونس کی جھونپڑیوں میں رہتے ہوئے موٹا جھوٹا لباس پہن کر فقر و فاقہ کی سختیاں جھیل کر بھی دوستی کی لاج رکھتے ہیں اور اس بے سرو سامانی کی حالت میں بھی انہیں ایسا ذہنی سکون نصیب ہوتا ہے اور وہ اس قدر روحانی لذت سے سر شار ہوتے ہیں کہ اُمراء و رؤسا اس لذت کے تصور سے بھی عاجز ہیں۔ وہ جو اس کی راہ میں فنا ہوئے دیکھنے والوں کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سخت تکلیف اُٹھارہے ہیں حالانکہ عین اس وقت جب اُن کے حلق بریدہ سے خون بہہ رہا ہوتا ہے اور اُ کے لاشے خاک و خون میں تڑپ رہے ہوتے ہیں، اُن کی روحیں اُس وقت بھی کلفت و اذیت سے محفوظ ہوتی ہیں اور یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، حدیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کہہ رہا ہوں۔