کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 97
مگر کاش! حضرت شیخ الحدیث صاحب خود ’’دیانتداری اور ایمانداری‘‘ کا مظاہرہ فرماتے اور عبدالله بن عمرو بن حارث کے حوالے سے ذکر کی ہوئی عبارت کے بعدکی ایک سطر بھی لکھ دیتے تو معاملہ بالکل عیاں ہو جاتا۔ انہاء السکن کے حوالے سے جو عبارت نقل کی گئی ہے اس کے بعد صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ:
’’کیا ہم عبدالله رحمہ اللہ بن عمرو بن حارث کے متعلق بھی احناف سے اسی انصاف کی توقع رکھ سکتے ہیں۔‘‘ (توضیح : ج ۱ ص ۳۴۸)
یہ الفاظ اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ عبد رحمہ اللہ الله بن عمرو کے حوالے سے یہ الزامی سوال ہے کہ جب مولانا ظفر احمد عثمانی ، امام بخاری رحمہ اللہ اور ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کے سکوت کو راوی کے ثقہ ہونے کی دلیل قرار دیتے ہیں تو اس حنفی اصول کی روشنی میں عبدالله بن عمرو رحمہ اللہ بھی ثقہ ہونا چاہیے۔ لہٰذا حنفی اصول سے اس معارضہ کو ہمارا موقف قرار دینا سراسر دھوکا ہے۔ الله تعالیٰ ایسے دھوکابازوں کو سمجھ عطا فرمائے اور بات سمجھنے کا سلیقہ بخشے۔
مزید برآں عبدالله بن عمرو کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے الثقات ( ج ۷ ص ۵۲) میں ’’مستقیم الامر فی الحدیث‘‘ بھی کہا ہے۔ پھر ہم نے خیر القرون کے مجہول اور مستور راویوں کے حوالے سے بھی حنفی اصول ذکر کیا ہے کہ اس لحاظ سے بھی اس کی روایت ان کے نزدیک مقبول ہونی چاہیے۔ مگر ڈیروی صاحب نے ا س کی کوئی فکر نہیں کی۔
چھتیسواں دھوکا
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا اثر
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ قراء ت خلف الامام کے قائل تھے جیسا کہ جزء القراء ۃ کے حوالے سے توضیح الکلام (ج۱ ص ۴۸۲) میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ مگر ڈیروی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ اثرقطعاً صحیح نہیں کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اثر قال لی عبیداللّٰه سے نقل کیا ہے اور جب امام بخاری رحمہ اللہ اس طرح بیان کریں تواس روایت میں کوئی عیب اور خرابی ضرور ہوتی ہے جیسا کہ اثری صاحب نے کہا ہے۔(بحوالہ امام بخاری رحمہ اللہ پر بعض اعتراضات کا جائزہ ص ۱۰۹)۔ لہٰذا اس سند میں خرابی ہے ، یہ صحیح نہیں۔