کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 96
علاوہ ازیں جناب ڈیروی صاحب نے ’’امام بخاری رحمہ اللہ پر بعض اعتراضات کا جائزہ‘‘ (ص ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۱۵) کے حوالے سے نقل کیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ بالجزم تعلیقاً روایت لیں تو وہ روایت ظاہر سند تک صحیح ہوتی ہے۔ پھر اس کو مذکورہ توضیح (ج ۲ ص ۵۷۶) کی عبارت کے معارض قرار دیا جس میں کہا گیا ہے کہ بالجزم تعلیقاً ضعیف بھی ہوتی ہے۔ حالانکہ دونوں میں کوئی تضاد نہیں ۔ توضیح کی عبارت میں تعلیق جازم کی ایک قسم کا بیان ہے۔ جیسا کہ اس کے الفاظ ہی سے عیاں ہوتا ہے اور وہ یہ کہ’’ امام بخاری رحمہ اللہ کبھی کبھی بالجزم ایسی معلق روایت بھی لاتے ہیں جو انقطاع کی بنا پر ضعیف ہوتی ہے۔‘‘اس سے کب لازم آیا کہ تمام بالجزم معلق روایات ضعیف ہوتی ہیں کہ اسے اس موقف کے معارض کہا جائے کہ ’’تعلیق جازم ‘‘ امام صاحب کے نزدیک صحیح ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں۔ ایک سچا طالب علم بلاشبہ دونوں میں کوئی تعارض نہیں سمجھتا۔ البتہ جو اپنے قارئین کو دھوکا میں مبتلا کرنا چاہے وہ خود ساختہ نتیجہ کی بنا پر تعارض ہی سمجھے گا۔
پینتیسواں دھوکا
عبدالله بن عمرو بن حارث اور حنفی اصول
راقم نے عبدالله رحمہ اللہ بن عمرو بن حارث کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے ۔ا مام بخاری رحمہ اللہ اور ابن ابی حاتم نے اس پر کوئی جرح نہیں کی اور مولانا ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ امام بخاری اور ابن ابی حاتم کا سکوت کرنا اور جرح نہ کرنا راوی کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے (انہاء السکن ص ۵۷،۵۸) ۔اسی عبارت کو لے کر ڈیروی صاحب نے فرمایا: یہ عبدالله بن عمرو چونکہ اثری صاحب کے موافق روایت میں تھا اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ و ابن ابی حاتم کا سکوت ثقہ ہونے کی دلیل بنا یاجا رہا ہے۔ جب کوئی راوی ان کے خلاف آجائے تو امام بخاری رحمہ اللہ و ابن ابی حاتم کا سکوت قابل حجت نہ ہوگا۔(ایک نظر: ص ۲۱۲)اس کے بعد انھوں نے توضیح کے مختلف حوالوں سے نقل کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ و ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کا سکوت راوی کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں۔ پھر فرمایا : یہ ہے مولانا ارشاد الحق صاحب کی دیانتداری و ایمانداری۔(ص ۲۱۳)