کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 95
ہے اثری صاحب نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تقلید میں عمروبن شعیب رحمہ اللہ کو قوی ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی ایک معلق بالجزم کا سہارا لیا حالانکہ اس کی روایت میں قتادہ رحمہ اللہ ہے جسے وہ خود مدلس کہتے ہیں۔ملخصاً (ص ۲۱۴،۲۱۵) حالانکہ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند کو ابن حجر رحمہ اللہ کی تقلید میں نہیں بلکہ خود امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کی بنا پر صحیح اور قوی کہا گیا ہے۔ چنانچہ امام رحمہ اللہ صاحب فرماتے ہیں: رایت احمد بن حنبل و علی بن المدینی و اسحاق بن راھویہ و ابا عبیدۃ و عامۃ اصحابنا یحتجون بحدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ۔(توضیح : ج ۱ ص ۴۴۳) میں نے دیکھا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ، علی رحمہ اللہ بن مدینی، اسحاق بن راھویہ، ابوعبیدہ رحمہ اللہ اور اکثر ہمارے اصحاب عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور اس کی تائیدمیں صحیح بخاری کی تعلیق جازم کی روایت ذکر کی، جو قتادہ عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ہے۔ مگر قتادہ رحمہ اللہ مدلس ہے جس کی بنا پر ڈیروی صاحب کو تضاد نظر آیا کہ یہ تو انقطاع ہے ، سند متصل نہیں۔ یہ صحیح کیسے ہو گئی؟ مگر انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ قتادہ رحمہ اللہ اس میں منفرد نہیں بلکہ مثنی رحمہ اللہ بن الصباح بھی عمر و سے یہی روایت بیان کرتا ہے، جیسا کہ تغلیق التعلیق (ج ۵ ص ۵۳) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ مثنی اگرچہ متکلم فیہ ہیں تاہم امام ابوحاتم نے تشدد کے باوجود اسے ’’ لین الحدیث‘‘ کہا۔ اسی طرح امام ابن معین رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے وہ ضعیف ہے متروک نہیں۔ اس کی حدیث لکھی جائے گی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ ثقہ ہے جمہور نے اسے ضعیف کہا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی تقریب میں ضعیف کہا ہے۔ لہٰذا وہ ایسا نہیں کہ اس کی روایت متابعت میں بھی مقبول نہ ہو۔ بالخصوص جب کہ ابن عدی رحمہ اللہ نے کہا :’’ لہ حدیث صالح عن عمرو بن شعیب‘‘(تہذیب : ج ۱۰ ص ۳۶) کہ اس کی عمرو بن شعیب سے حدیث صالح ہے۔ اس لیے متابعت کی بنا پر تدلیس کا شبہ جاتا رہا۔ ڈیروی صاحب چونکہ اس سے بے خبر تھے اسی لیے تضاد کا الزام دے رہے ہیں۔