کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 91
ہے۔(نصب الرایہ : ج ۳ ص ۱۵۰) اور احناف اس سے عمرہ کے نفل ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ (فتح القدیر: ج ۲ ص ۳۰۶) ۔ ڈیروی صاحب کی تسلی کے لیے عرض ہے جب ابوالزبیر کی متابعت محمد بن المنکدر سے آپ کے ہاں ثابت ہے تو پھرکیااس پر ابوالزبیر کی تدلیس کا اعتراض غلط نہیں؟
قارئین کرام ! انصاف فرمائیں ڈیروی صاحب کے مسلک کی روشنی میں بھی ابوالزبیر کی تدلیس کا الزام درست نہیں اور ہمارے ہاں تو یحییٰ بن ایوب کی غرابت و مناکیرکی بنا پر روایت ہی ضعیف ہے اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے کلام میں ’’ اسنادہ صالح‘‘ کا مصداق بھی بظاہر پہلی سند ہے، بعد کی نہیں اور یہی ہمارا مطلوب تھا جسے ڈیروی صاحب سمجھ نہیں سکے۔
بتیسواں دھوکا
امام زہری رحمہ اللہ کی مراسیل اور ڈیروی صاحب کے وساوس
راقم نے امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ وغیرہ کے قول کی بنا پر عرض کیا تھا کہ امام زہری رحمہ اللہ کی مراسیل قابل قبول نہیں (توضیح: ج ۲ ص ۳۷۵) امام ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ نے معمر عن الزہری عن سالم عن ابن عمرکی سند سے ایک روایت ذکر کی ہے۔ جس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے کہ معمر کے برعکس شعیب وغیرہ نے زہری قال حدثت عن محمد بن سوید الثقفی سے یہ روایت مرسل بیان کی ہے اور یہی روایت محفوظ ہے اور معمر رحمہ اللہ کی روایت غیر محفوظ ہے۔(توضیح: ج ۱ ص ۱۲۹) جناب ڈیروی صاحب بزعم خویش ان دونوں باتوں کو تضاد سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں : لیجیے ! جناب زہری رحمہ اللہ کی مرسل اور منقطع روایت صحیح ہے۔(ایک نظر: ص ۲۴۳)
حالانکہ ان دونوں باتوں میں قطعاً تضاد نہیں ۔ امام زہری رحمہ اللہ کی مرسل روایت کا حکم کیا ہے۔ محدثین کے ہاں ارسال کی بنا پر ضعیف ہے۔ اب ایک روایت معمر ، زہری عن سالم عن ابن عمر کی سند سے روایت کرتے ہیں جب کہ معمر رحمہ اللہ کے علاوہ شعیب رحمہ اللہ اور دیگر ا سکے ساتھی اسے زہری قال حدثت عن محمد بن سوید الثقفی کی سند سے