کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 90
بن حمدویہ کے ترجمہ میں اپنے واسطہ سے بطریق محمد بن الحسین انا محمد بن حمدویہ انا عبداللّٰه بن حماد ایک روایت ذکر کی ہے او رآخر میں لکھا ہے : اسنادہ صالح (توضیح: ج ۱ ص ۴۵۶، التذکرہ: ج ۳ ص ۸۷۲) بتلائیے ! ہم نے کہاں اس ساری سند کے بارے میں ’’ اسنادہ صالح ‘‘ کے قول پر اعتماد کیا ہے۔ ہمارا اعتماد تواس کے ان راویوں کے حوالہ سے ہے جن کا سند میں ذکر ہے۔ اور پھر ان کے تراجم کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے اور عبدالله بن حماد سے اوپر کی سند قطعاً وہ نہیں جو تذکرۃ الحفاظ میں ہے مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ڈیروی صاحب اسے ساری سند کے بارے میں باور کر رہے ہیں ۔
ثانیاً : کیا خود علامہ ذہبی رحمہ اللہ اس کی سند کو صالح کہنے کے باوجود اس روایت کو صالح ، قابل اعتبارقرار دیتے ہیں؟ ہرگز نہیں، عبدالله بن حماد اسے سعید بن عفیر حدثنا یحیی بن ایوب عن عبیداللّٰه عن ابی الزبیر عن جابر کی سند سے بیان کرتے ہیں اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ اس کے متصل بعد یحییٰ بن ایوب کے بارے میں لکھتے ہیں: یحي یغرب و یأتی بمناکیرکہ یحییٰ غریب اور منکر روایات بیان کرتا ہے۔میزان الاعتدال (ج ۴ ص ۳۶۳) میں یحییٰ بن ایوب کے ترجمہ میں یہی روایت اسی سند سے ذکر کی اور فرمایا: ’’ ھذا غریب عجیب تفرد بہ سعید ھکذا عن یحی بن ایوب‘‘کہ عجیب و غریب روایت ہے ، یحییٰ سے سعید روایت کرنے میں منفرد ہے۔اس لیے یہ سمجھنا کہ پوری سند کو علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے صالح کہا ہے محل نظر ہے۔ جب وہ اسے غریب اور منکر قرار دیتے ہیں تو اس کا تعلق ’’ سعید عن یحییٰ‘‘ سے ہے اور اسنادہ صالح سے مراد اس سے پہلے کی سند ہے۔ لہٰذا ابوالزبیر کے عنعنہ کا یہاں کوئی تعلق اس حکم سے نہیں۔ نہ راقم کے کلام میں یہ مراد ہے ، نہ ہی علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے کلام سے اس کی تائید ہوتی ہے۔مزید دیکھیے التلخیص الحبیر (ص ۲۲۶ ج ۲)۔
یاد رہے یہ روایت طبرانی صغیر (ج ۲ ص ۸۹) ، الاوسط (۶۵۶۸) دارقطنی (ج ۲ ص ۲۸۵) میں بھی سعید بن عفیر کی سند سے ہے، مگر جامع ترمذی اور طبرانی وغیرہ میں یہی روایت الحجاج بن ارطاۃ عن محمد بن المنکدر عن جابرکی سند سے مروی