کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 89
دیکھیے العلل لابن ابی حاتم (ج ۱ ص ۱۱۷) ،العلل للدارقطنی (ج ۴ ص ۳۴۴،۳۴۵) علاوہ ازیں ابن عجلان رحمہ اللہ وہیب رحمہ اللہ کی روایت میں’’اخبرنی محمد بن ابراہیم التیمی‘‘ تصریح سماع کرتے ہیں۔ (بیہقی : ج ۲ ص ۱۰۷ ، حاکم :ج ۱ ص ۲۷۱) لہٰذا اصل روایت میں تدلیس کا شبہ تو نہیں اختلاف متصل و مرسل ہونے میں ہے اور یہ اختلاف اس کے شاگردوں کا ہے ، ابن عجلان کا نہیں۔ جنا ب شیخ الحدیث صاحب جوش انتقام میں ہوش بھی کھو بیٹھے ہیں اس لیے بات بگاڑ کر دھوکا میں مبتلا کر رہے ہیں۔
اکتیسواں دھوکا
ابوالزبیر رحمہ اللہ کی تدلیس کے دفاع کی ناکام کوشش
راقم نے توضیح میں ابوالزبیر محمد رحمہ اللہ بن مسلم کو متقدمین محدثین کے فیصلے کے مطابق مدلس قرار دیا جس کے متعلق جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں کہ اثری صاحب ابوالزبیر عن عبداللّٰه بن باباہ کے طریق سے مروی روایت کو محفوظ مان رہے ہیں۔ حالانکہ یہاں بھی ابوالزبیر رحمہ اللہ نے ’’عن‘‘ سے روایت کی ہے۔ اسی طرح علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں :’’اسنادہ صالح‘‘ (توضیح : ج ۱ ص ۴۵۶) حالانکہ یہ سند بھی ابوالزبیر عن جابر کے طریق سے مروی ہے۔ ۔ملخصاً (ایک نظر: ص ۲۴۶)
جناب ڈیروی صاحب نے ’’ المحفوظ عن ابی الزبیر عن عبداللّٰه بن باباہ‘‘ کے الفاظ سے سمجھا کہ یہ روایت بھی معنعن ہے۔ حالانکہ یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ ابوالزبیر انہ سمع عبدالله بن باباہ کے الفاظ سے صراحت سماع ثابت ہے ۔ ملاحظہ ہو مسند حمیدی (ج ۱ ص ۲۵۵، رقم ۵۶۱، المعرفۃ والتاریخ : ج ۲ ص ۲۰۶، النسائی : ج ۱ ص ۶۸ رقم : ۵۸۶ ، صحیح ابن خزیمہ :ج ۴ ص ۲۲۶)۔ لہٰذا یہ روایت صحیح ہے اور تدلیس کا شبہ مرتفع ہے۔
رہی وہ روایت جسے علامہ ذہبی نے التذکرہ (ج ۳ ص ۸۷۲) میں اسنادہ صالح کہا ہے تو اولاً ہمارا اس سے استدلال صرف اس کی ابتدائی سند تک ہے ۔ راقم کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔’’ اس سند کے ابتدائی عبدالله بن حماد تک راوی ثقہ ہیں، حافظ ذہبی نے محمد