کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 85
انتیسواں دھوکا
کیا علاء رحمہ اللہ بن عبدالرحمن کی روایت ضعیف ہے؟
علاء بن عبدالرحمن کیسا راوی ہے ؟توضیح الکلام جلد اول میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ اور امام ابوداو،د رحمہ اللہ نے جو فرمایا ہے کہ علاء کی صیام شعبان سے متعلقہ روایت منکر ہے تو اس سے مراد تفرد ثقہ ہے۔ شاذ کے مقابلے میں اصطلاحی منکر مراد نہیں(توضیح : ج ۱ ص ۱۶۹،۱۷۰) ۔اس پر ہمارے مہربان فرماتے ہیں کہ اثری صاحب نے لکھا ہے کہ عبدالرحمن رحمہ اللہ بن ابراہیم کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ثقہ کہنے کے باوجود جو ضعیف کہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی یہ روایت علاء رحمہ اللہ بن عبدالرحمن کے واسطہ سے ہے اور عبد رحمہ اللہ الرحمن کی علاء سے یہ روایت منکر ہے۔ جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے (توضیح: ج ۱ ص ۳۷۳) ۔ لیجیے جناب! کہ عبدالرحمن رحمہ اللہ ثقہ ہونے کے بعد امام دارقطنی رحمہ اللہ کے ہاں ضعیف اس لیے ہو گیا ہے کہ اس کی یہ روایت علاء رحمہ اللہ بن عبدالرحمن کی وجہ سے منکر ہے۔ اب یہاں اثری صاحب نے علاء رحمہ اللہ کی روایت منکر بمعنی ضعیف خود تسلیم کر لیا ہے۔’’دروغ گو را حافظہ نہ باشد‘‘۔ (ایک نظر: ص ۲۴۷)
قارئین کرام ! آپ مسلسل دیکھ رہے ہیں صحیح بات کو بگاڑنے اور اپنے ناخواندہ حواریوں کی آنکھوں میں مٹی ڈالنے کا ڈیروی صاحب کتنی چابکدستی سے مظاہرہ کرتے ہیں۔ علاء رحمہ اللہ کی حدیث تفرد کی وجہ سے منکر ہونا اور عبد رحمہ اللہ الرحمن کی علاء رحمہ اللہ سے روایت منکر ہونا دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ افسوس! شیخ الحدیث صاحب نے ا س کو ملحوظ نہیں رکھا ،یا دھوکا دینے کے لیے اس سے اغماض کر رہے ہیں۔ حافظ ابن رجب نے ایک مستقل نوع میں ذکر کیا ہے کہ بعض راوی فی نفسہٖ ثقہ ہوتے ہیں مگر اپنے بعض شیوخ سے روایت کرنے میں ضعیف ہوتے ہیں جس کی متعدد مثالیں انھوں نے دی ہیں۔ ملاحظہ ہو شرح علل الترمذی (ص ۳۳۶،۳۵۷)۔ اوراسی کو اصطلاح حدیث میں تضعیف نسبی کہتے ہیں۔ دکتور صالح بن حامد الرفاعی نے ’’ا لثقات الذین ضعفوا فی بعض شیوخھم ‘‘