کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 84
جیساکہ خود انھوں نے توضیح (ج ۲ ص ۱۹۶) میں لکھا ہے۔۔ملخصاً (ایک نظر: ص ۲۷۰)
دراصل جناب ڈیروی صاحب نے خود ارشادالساری کی طرف مراجعت نہیں کی ۔ اسی بنا پر وہ دھوکا کا الزام دینے میں خود دھوکا دہی سے کام لے رہے ہیں ۔ چنانچہ اصل حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے ’’ باب وجوب القراء ۃ للامام والماموم فی الصلوات کلھا فی الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت‘‘کہ باب ہے وجوب قراء ۃ (ای الفاتحہ ۔ یعنی فاتحہ کا) امام اور مقتدی کے لیے تمام نمازوں میں حضر میں ہویا سفر میں، اونچی آواز سے پڑھا جائے یا آہستہ اسی باب کے بارے میں علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھذا مذھب الجمہور خلافاً للحنفیۃ حیث قالوا لا تجب علی الماموم لان قراء ۃ الامام قراء ۃ لہ۔ (ارشاد الساری : ج ۲ ص ۷۰)
’’یہ جمہو رکا مذہب ہے ، برعکس حنفیہ کے کہ وہ کہتے ہیں کہ مقتدی پر واجب نہیں کیونکہ امام کی قراء ت مقتدی کے لیے ہے۔ ‘‘اب انصاف شرط ہے کہ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بتلائے ہوئے موقف کو جمہور کا مذہب کہہ رہے ہیں یا صرف سری نمازیں یہاں مراد ہیں۔
اندازہ کیجیے! بات بگاڑنے میں جنا ب ڈیروی صاحب کو کیسا کمال حاصل ہے اور توضیح (ج ۲ ص ۱۹۶) سے جو کچھ انھوں نے مغالطہ دیا وہ بات کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ان کے شیخ مکرم نے فرمایا تھا کہ ’’جمہور صرف قراء ت امام کو ترک قراء ت کی علت سمجھتے ہیں۔(احسن : ج۱ ص ۱۵۶) اسی کے جواب میں کہا گیا کہ اگر جمہورصرف قراء ت امام کوعلت سمجھتے تو وہ سری میں فاتحہ کے قائل نہ ہوتے۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کی عبارت اسی تناظر میں ہے ۔ یہ نہیں کہ اس کا تعلق جہری سے نہیں، جیسا کہ ڈیروی صاحب سمجھ رہے ہیں۔