کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 83
کاشمیری نے پہلے الاتقان سے علامہ ابن رحمہ اللہ الصلاح کا قول نقل کیا ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت سے الله تعالیٰ نے انسانوں کو تکریم بخشی ہے، فرشتوں کو یہ حاصل نہیں۔ وہ انسانوں سے سننے کے حریص ہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں:
قلت وھو قولہ تعالٰی ’’ان قرآن الفجر کان مشھودا‘‘ تشھدہ ملائکۃ اللیل والنھار ، و قولہ تعالٰی ’’وانا لنحن الصافون وانا لنحن المسبحون‘‘ ، و قد نسب فی القراٰن العزیز نحو الاذکار الیھم لا القراٰن ۔ (فصل الخطاب ص ۳۴، مع الکتاب المستطاب: ص ۱۳۰)
’’میں کہتا ہوں اس پر دلیل یہ ہے کہ رات اور دن کے فرشتے الله کے فرمان کے مطابق صبح کی نماز میں (قرآن سننے کے لیے) شریک ہوتے ہیں۔ اور الله تعالیٰ کا وہ فرمان کہ ہم تو صف باندھے رہتے ہیں اور ہم الله کی تسبیح کرنے والے ہیں اور قرآن عزیز میں اذکار کی ان کی طرف نسبت کی گئی ہے، قرآن پاک کی نہیں۔‘‘
لیجیے جناب علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے تواس مسئلہ پر مزید قرآن مجید سے دلائل کا بھی ذکر کردیا۔ مگر شیخ الحدیث ڈیروی صاحب صرف راقم کی مخالفت میں اسے بہتان قرار دے رہے ہیں۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام کا معاملہ دوسرے فرشتوں سے علیحدہ ہے۔ تعلیم وتعلم اور تلاوت میں فرق ہے۔ ڈیروی صاحب نے یہ فرق بھی ملحوظ نہیں رکھا ورنہ اس اعتراض کی جراء ت نہ کرتے۔
اٹھائیسواں دھوکا
جمہور کا موقف اور علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کی وضاحت
راقم نے علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا تھا کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ فاتحہ خلف الامام فرض ہے، البتہ حنفیہ اس کے خلاف ہیں(توضیح : ج ۱ ص ۵۱) اس پر جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں : اثری نے دھوکا دیا ، یہ نہیں بتلایا کہ اس کا تعلق سری نماز سے ہے ،