کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 81
ابن علیہ نے اختلاط کے بعد ہی سنا ہوگا۔ حالانکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن علیہ رحمہ اللہ کی نفی نہیں کی،اور ان تینوں کے علاوہ خالد بن عبدالله الطحان اور ابن علیہ کی سعید الجریری سے روایات بخاری مسلم میں موجود ہیں ، جیسا کہ الکواکب النیرات کے محقق اورنہایۃ الاغتباط کے محقق نے ذکر کیا ہے۔ اس لیے مقدمہ فتح الباری سے انھیں جو غلط فہمی ہوئی یہ ان کے قصور علم کا نتیجہ ہے۔ مگر الزام اس ناکارہ پر۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
پھر ابن علیہ رحمہ اللہ یہ روایت کرنے میں منفرد نہیں۔ یزید نے بھی یہ روایت سعید سے بیان کی ہے(ابن جریر : ج ۱۴ ص ۵۴)۔ اس لیے یہ اعتراض بہرنوع غلط ہے۔
ستائیسواں دھوکا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر جس کے حوالے سے ابھی بات ہو رہی تھی اسے علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے امام ابوعبید رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے او ر اس بارے میں علامہ علی رحمہ اللہ متقی نے فرمایا ہے کہ یہ حکماً مرفوع ہے اور اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ فرشتوں کو قرآن مجید میں سے صرف فاتحہ پڑھنے کی اجازت ہے، جیسا کہ الدر المنثور (ج ۱ ص ۶) کے حوالہ سے توضیح (ج ۱ ص ۲۱۹) میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ اس کے متعلق جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:
امام ابوعبید کی وفات (۲۶۴ھ) میں ہوئی جب کہ سیار کی وفات (۱۲۹ھ) میں ہوئی تو یہ امام ابوعبید اور سیار کے درمیان منقطع ہے۔ پھر سیار رحمہ اللہ ا ور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان منقطع ہے۔ جب یہ مرسل و منقطع ہے تو حکماً مرفوع کیسے ہو گئی۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی ۔ ظاہر ہے کہ اس میں فاتحہ کے علاوہ بھی سورت تھی۔ اسی طرح وہ آپ سے دور بھی کرتے تھے۔ فرشتوں کو صرف سورہء فاتحہ پڑھنے کی اجازت ہے ۔ دیگر قرآن کی اجازت نہیں ۔ یہ بھی بہتان ہے۔(ایک نظر: ص ۲۷۰)
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے الدرالمنثور کو جن مراجع سے مرتب کیا ، ان میں ایک امام ابوعبید رحمہ اللہ قاسم بن سلام کی فضائل القرآن بھی ہے ۔ انھوں نے اختصار کی بنا پر ان کی اسانید کو حذف کر دیا۔ اس لیے آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ امام ابوعبید رحمہ اللہ نے جو اثر ذکر کیا ہے اس کی سند معلوم نہیں کہ وہ کیسی ہے، صحیح ہے یا ضعیف، مگر اس کے برعکس یہ کہنا کہ یہ منقطع ہے یہ