کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 75
سعدی نے گھڑی ہے، اثری صاحب کی ایمانداری دیکھو کہ کذاب راویوں سے امام اعظم پرجرح کرتا ہے ۔ امام نضر رحمہ اللہ کا یہ قول الکامل ابن عدی میں نہیں۔ یہ مولانا اثری صاحب کا خالص جھوٹ ہے۔ (ایک نظر : ص ۳۱۰)
قارئین کرام ! انصاف فرمائیں جب راقم نے خود اس قول کا ضعیف ہونا بیان کر دیا تواس کے بعد ایمانداری کا تقاضا کیا ہے ؟ بلاشبہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا کہ ’’شاید یہ حدیث سعدی نے گھڑی ہے‘‘ اور اسی بنا پر شیخ الحدیث صاحب اسے کذاب قرار دیتے ہیں، حالانکہ خود علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ہی نقل کیا ہے کہ حمزہ سہمی نے کہا ہے : لم یتعمد الکذب وکذا قال ابن عدی وہ قصداً جھوٹ نہیں بولتا اور اسی طرح ابن عدی نے کہا ہے(میزان : ج ۱ ص ۹۴) اور ابن عدی کے الفاظ ہیں: ھو عندی ممن لا یتعمد الکذب وھو ممن یشبہ علیہ فیغلط فیحدث بہ من حفظہ وہ میرے نزدیک قصداً جھوٹ نہیں بولتا بلکہ وہ ان میں سے ہے جن پر بات مشتبہ کر دی جاتی تو وہ غلطی سے اسے زبانی بیان کرنے لگتے ہیں (الکامل : ج ۱ ص ۲۰۳ ، لسان : ج ۱ ص ۱۶۳) بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حافظ اسماعیلی اسے صدوق کہتے ہیں۔ پھر جس روایت کی بنا پر علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شاید یہ سعدی نے گھڑی ہے وہ روایت امام ابن عدی نے سعید بن عقبہ کے ترجمہ میں ذکر کی ہے اور اسے مجہول غیر ثقہ قرار دیا ہے (الکامل: ج ۳ ص ۱۲۴۷،۱۲۴۸) اور کہا ہے کہ یہ حدیث منکر الاسناد والمتن ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ اس میں بھی احمد رحمہ اللہ بن حفص کو نہیں سعید بن عقبہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ لہٰذا امام ابن عدی رحمہ اللہ اور حمزہ سہمی رحمہ اللہ کی صراحت کے باوجود کہ وہ کذاب نہیں علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا قول محض تحامل ہے۔ بالخصوص جب کہ حافظ اسماعیلی رحمہ اللہ اسے صدوق کہتے ہیں۔
علامہ ذہبی کے سہارے ڈیروی صاحب نے جو فرمایا اس کی حقیقت معلوم کرنے کے بعد ان کی ہٹ دھرمی بلکہ غلط بیانی کا اندازہ کیجیے کہ کتنے وثوق سے اپنے ناخواندہ حواریوں کو مطمئن کرتے ہیں کہ اجی! الکامل میں تو ’’امام نضر رحمہ اللہ کا یہ قول ہی نہیں اور یہ اثری صاحب کا خالص جھوٹ ہے۔‘‘ حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ الکامل (ج ۶ ص ۲۴۷۴ ) سطر نمبر۶ کی ابتدا