کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 70
نے مطعون فرمایا انھیں اٹھا کر اپنے شیخ مکرم پر چسپاں کرلیں۔ اس ناکارہ کے پیچھے پڑنا کونسا انصاف ہے۔ راقم نے باقاعدہ جزء القراء ۃ (ص ۸) کا حوالہ دیا ہے اور جزء القراء ۃ مطبوعہ دہلی کے اسی صفحہ پر ’’ لا یعتد‘‘کا لفظ موجود ہے اور حاشیہ میں نسخہ کا حوالہ دیتے ہوئے ’’ لا تعتد‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اس لیے راقم نے کوئی تحریف نہیں کی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی اثر کو ص ۶ پر مختصراً ’’ اعاد الصلاۃ‘‘ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے جس سے ’’ لا یعتد‘‘ ہی کی تائید ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے امام مجاہد کا یہ اثر گو ’’ قال ابن علیۃ‘‘ سے ذکر کیا ہے اور ابن علیہ سے ان کا سماع نہیں مگر یہی اثرامام ابن أبی شیبہ نے المصنف (ج ۱ ص ۳۹۷) میں ابن علیہ سے براہ راست نقل کیا ہے ۔ اس لیے اس پر انقطاع کا اعتراض سراسر بے خبری پر مبنی ہے اور المصنف میں بھی ’’ لا یعتد‘‘ ہے۔ ’’ لا تعد‘‘ نہیں۔ المصنف مطبوعہ بیروت کے (ج ۱ ص ۳۴۸) میں بھی ’’یعتد ‘‘ہی ہے بلکہ امام ابن ابی شیبہ نے تواس پر باب یہ قائم کیا ہے ’’من کان یقول اذا نسی القراء ۃ أعاد‘‘۔ بتلائیے! اس سے بڑھ کر ہم ان کی اور کیسے تسلی کریں۔ ضد کا مرض تو لاعلاج ہے۔ علاوہ ازیں امام ابن ابی شیبہ نے یہی اثر اسی سند سے ان الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ اذا لم یقرأ فی کل رکعۃ بفاتحۃ الکتاب فانہ یعید تلک الرکعۃ۔ (المصنف: ج ۱ص ۳۶۱) کہ جس رکعت میں فاتحہ نہ پڑھی جائے تو وہ رکعت دوبارہ پڑھی جائے۔ یہ الفاظ بھی اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ پہلی روایت میں ’’لا یعتد‘‘ ہے ، لا تعد نہیں۔ جزء القراء ۃ کے اگر کسی نسخہ میں (جیسا کہ ڈیروی صاحب نے اس کا حوالہ دیا اوراسی سے دھوکا کھا کر اس ناکارہ پر تحریف کا الزام لگایا) غلط لا تعد چھپا ہے، تو اس سے حقیقت نہیں بدلتی۔ جزء القراء ۃ کے جس نسخہ کا راقم نے حوالہ دیا ہے اس میں بلکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی ’’لا یعتد‘‘ ہے اور اس کا ترجمہ مولانا صفدر صاحب نے یہ کیا کہ ’’اس رکعت کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘ اس لیے تحریف کا الزام محض دھوکا پر مبنی ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جناب ڈیروی