کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 69
کی کتابوں کے ساتھ رد کر دیا ہے۔ابن معین رحمہ اللہ نے اسے لیس بشیء کہا ہے۔ لہٰذا شاید مصیبت کامل رحمہ اللہ کی طرف سے ہو۔‘ ‘ یہاں بھی علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ابن لہیعہ رحمہ اللہ پر تشیع کے الزام کی تردید کی اوراس کی بجائے کامل کو مورد الزام ٹھہرایا۔ بلکہ صحیح تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی رافضی کی کارستانی ہے جیسا کہ السیر میں انھوں نے فرمایا ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے ۔امام ابن عدی رحمہ اللہ ، ابن لہیعہ رحمہ اللہ ، کی احادیث کو حسن قرار دیتے ہیں اور کسی ثقہ یا حسن الحدیث کی کوئی روایت منکر ہونا یااس سے خطا ہونا اس کی توثیق اور حسن الحدیث ہونے کے منافی نہیں۔
بیسواں دھوکا
امام مجاہدکا اثر
امام مجاہد کا اثرراقم نے لا یعتد کے لفظ سے نقل کیا، جس کے بارے میں جناب ڈیروی صاحب فرماتے ہیں اثری صاحب نے متن میں تحریف کر دی ، اصل لفظ لا تعد تلک الرکعۃ تھے ، جس کا معنی ہے اس رکعت کا اعادہ نہ کرنا۔ لیکن جزء القراء ۃ کے حاشیہ پر ایک نسخہ لا یعتد تھا جس کا معنی بنتا ہے کہ یہ رکعت شمار نہ ہوگی۔ اس لیے اثری صاحب نے تحریف کا ارتکاب کرتے ہوئے متن سے ’’ لا تعد‘‘ کو کاٹ کر ’’ لا یعتد‘‘ بنا دیا۔(ایک نظر : ص ۱۶۷،۱۶۸)
جزء القراء ۃ کا جو نسخہ اس عاجز کے سامنے ہے اس میں کیا ہے ، اس بحث سے پہلے یہ دیکھیے کہ جناب ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم نے امام مجاہد رحمہ اللہ کے اسی اثر کا ترجمہ یوں کیا ہے:
’’ جب سورہ ء فاتحہ بھول جائے تواس رکعت کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘(احسن : ج ۲ ص ۴۳ ط ۲ ، ج ۲ ص ۴۷ ط ۵)
سوال یہ ہے کہ مولانا صفدر صاحب نے جو یہ ترجمہ کیا یہ ’’ لا تعد‘‘ کا ہے یا ’’لا یعتد‘‘ کا ؟ ظاہر ہے کہ یہ ’’ لا یعتد‘‘ ہی کا ترجمہ ہے ۔ تو اب یہ تحریف ہے تواس کے مرتکب ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم ہیں۔ اس حوالہ سے اس ناکارہ کو جن الفاظ سے انھوں