کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 68
التشیع ولا الرجل متھم بالوضع بل لعلہ ادخل علی کامل فانہ شیخ محلہ الصدق لعل بعض الرافضۃ ادخلہ فی کتابہ ولم یتفطن ھو، فاللّٰه اعلم۔ (السیر:ج ۸ ص ۲۶) ’’تو ایسی بات ہم نے ابن لہیعہ رحمہ اللہ سے نہیں سنی بلکہ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ تشیع میں مفرط ہے اور نہ ابن لہیعہ حدیث گھڑنے میں متہم ہے، بلکہ شاید کامل بن طلحہ (جو ابن لہیعہ رحمہ اللہ کا شاگرد ہے) پر یہ روایت ڈال دی گئی ہے۔ وہ شیخ ہیں اور صدوق ہیں۔ شاید کسی رافضی نے اس کی کتاب میں اس کو داخل کر دیا ہو اور انھوں نے اسے نہ سمجھا ہو۔ ‘‘غور فرمائیے! کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ تو ابن لہیعہ کو سرے سے شیعہ ہی تسلیم نہیں کرتے چہ جائیکہ انھیں غالی شیعہ قرار دیا جائے۔ اور اس روایت میں غلطی کا انتساب ان کی طرف نہیں بلکہ کامل بن طلحہ کی طرف کرتے ہیں۔ اور اسے دراصل کسی رافضی کی کارستانی ظاہر کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح معمر کے بھتیجے نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی منقبت میں حدیث ’’ انت سید فی الدنیا سید فی الاخرۃ‘‘ بنا کر کتاب میں داخل کر دی اور امام عبدالرزاق اسے روایت کرتے تھے۔ حالانکہ وہ اس کے وضع سے بری الذمہ ہیں(تہذیب : ج ۱ ص ۱۲،۱۳ وغیرہ)۔اس لیے ابن لہیعہ رحمہ اللہ اور کامل رحمہ اللہ دونوں اس سے بری الذمہ ہیں اور یہ کارستانی کسی رافضی کی ہے۔ اسی طرح علامہ ذہبی رحمہ اللہ تاریخ میں لکھتے ہیں: ’’ کذا قال ابن عدی و مارأیت احداً قبلہ رماہ بالتشیع و کامل الجحدری وان کان قد قال ابوحاتم لا بأس بہ و قال ابن حنبل ما علمت احداً یدفعہ بحجۃ فقد قال ابو داؤد رمیت بکتبہ و قال ابن معین لیس بشیء فلعل البلاء من کامل واللّٰه اعلم ۔ ‘‘(تاریخ الاسلام : ص ۲۲۵) ابن عدی رحمہ اللہ نے اسی طرح کہا ہے کہ وہ غالی شیعہ تھا مگر میں نے ان سے پہلے کسی کو نہیں پایا کہ اس نے ابن لہیعہ رحمہ اللہ پر تشیع کا الزام لگایا ہو۔ کامل الجحدری کے بارے میں اگرچہ ابوحاتم رحمہ اللہ نے لا بأس بہ کہا اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا ہے میں کسی کے بارے میں نہیں جانتا کہ اس نے کسی دلیل کی بنا پر اس پر نقد کیا ہو، تاہم ابو داؤد نے فرمایا ہے کہ میں نے اسے اس