کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 67
کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے:
احادیثہ احادیث حسان مع ما قد ضعفوہ فیکتب حدیثہ و قد حدث عنہ مالک و شعبۃ واللیث۔ (السیر: ج ۸ ص ۲۲)
اس کی احادیث حسن ہیں ۔ اس کے باوجود کہ انھوں نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ لہٰذا اس کی حدیث لکھی جائے گی اور اس سے مالک رحمہ اللہ ، شعبہ رحمہ اللہ اور لیث رحمہ اللہ نے روایت لی ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے جو نقل کیا وہ بھی الکامل میں موجود ہے اور الفاظ یوں ہیں:
’’وحدیثہ احادیث حسان وھو قد ضعفہ السلف ھو حسن الحدیث یکتب حدیثہ و قد حدث عنہ الثقات الثوری وشعبۃ ومالک وعمرو بن الحارث واللیث بن سعد۔‘‘ (الکامل : ج ۴ ص ۱۴۷۰)
بتلائیے! جب ابن عدی رحمہ اللہ ، ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی احادیث کو حسن اور اسے حسن الحدیث قرار دیں تو یہ اس کی توثیق ہے یا نہیں؟ مگر میں نہ مانوں کا کوئی علاج نہیں۔
رہی وہ روایت جس کے بارے میں کہا گیا کہ ابن عدی نے فرمایا ہے کہ شاید مصیبت ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی جانب سے ہے۔
تو یہ روایت ابن عدی رحمہ اللہ نے ابن لہیعہ رحمہ اللہ کے ترجمہ میں ذکر نہیں کی بلکہ حیي بن عبدالله المصری کے ترجمہ (ج ۲ ص ۸۵۶) میں ذکر کی ہے او راسے منکر قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ شاید مصیبت ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی جانب سے ہو۔ مگر غور فرمایا آپ نے کہ ابن عدی رحمہ اللہ ’’لعل البلاء‘‘ کہہ رہے ہیں۔ یقین سے تو ابن لہیعہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہے۔ پھر کیا ثقہ اور صدوق یا حسن الحدیث راوی کی حدیث منکر نہیں ہو سکتی؟ خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے السیر(ج ۸ ص ۲۴) میں اس کو منکر اور موضوع قرار دیا۔ مگر امام ابن رحمہ اللہ عدی نے جو یہ فرمایا ہے کہ شاید مصیبت ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی جانب سے ہے۔ کیونکہ یہ غالی شیعہ ہے ۔تواس کے متعلق لکھتے ہیں:
فما سمعنا بھذا عن ابن لھیعۃ ،بل ولا علمت انہ مفرط[1] فی
[1] اصل میں میں ’’غیر مفرط‘‘ ہے ، مگر یہ درست نہیں۔ پوری عبارت اور تاریخ الاسلام کی عبارت سے اسی کی تائید ہوتی ہے کہ یہاں ’’غیر ‘‘ کا لفظ درست نہیں۔