کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 63
کرنے سے روکا گیا ہے، قراء ت قرآن ، تسبیح و تکبیر اور ذکر و دعا سے نہیں روکا گیا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا: ثم انصت اذا خرج الامام حتی یصلی کہ جب امام خطبہ کے لیے آئے تو خاموش ہو جائے تا آنکہ وہ نماز پڑھ لے۔ توا س سے آپ کی یہ مراد نہ تھی کہ نماز کے لیے تکبیر تحریمہ بھی نہ کہے، نہ رکوع کے لیے تکبیر کہے، نہ اس میں تسبیح پڑھے۔ نہ رکوع سے اٹھ کر ربنالک الحمد پڑھے اورنہ سجدہ کو جاتے ہوئے تکبیر کہے، نہ سجدہ میں تسبیحات پڑھے اور نہ ہی تشہد پڑھے۔ جو احکام دین سے واقف ہے وہ اس وہم میں مبتلا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس علم کا تقاضا ہے ، اس حدیث میں انصات کاتعلق لوگوں سے باتیں کرنے اور بات کرنے سے ہے، نمازی کو تکبیر، قراء ت، تسبیح اور ذکرکا جو حکم ہے اس سے خاموشی مراد نہیں۔ (ملخصاً صحیح ابن خزیمہ: ج ۳ ص ۱۳۸)
اس لیے اس حدیث کا جو ترجمہ کیا گیا ہے وہ قطعاً غلط نہیں، نہ ایجاد بندہ ہے بلکہ مسند امام احمد وغیرہ کی حدیث کے عین مطابق ہے۔
اٹھارہواں دھوکا
راقم نے عرض کیا تھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا ہے کہ واذا قرأ فانصتوا سلیمان کا وہم ہے ۔ اس کے علاوہ اور کسی نے یہ بیان نہیں کیا۔ توضیح(ج ۲ ص ۳۲۷) جس کے متعلق جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:
’’امام بخاری کی طرف اس بات کی نسبت کرنا خالص جھوٹ ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلیمان تیمی وعمرو بن عامر(صحیح عمر بن عامر) دونوں نے قتادہ عن یونس سے واذا قرأ فانصتوا کا جملہ روایت کیا ہے لیکن سلیمان نے قتادہ رحمہ اللہ سے سماع کا ذکر نہیں کیا اور قتادہ رحمہ اللہ نے بھی یونس سے سماع کا ذکر نہیں کیا۔ معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں اس روایت میں سلیمان کا تفرد نہیں۔۔۔ غیر مقلدین کے مذہب کی بدنامی کے لیے توضیح الکلام کافی ہے۔‘‘
(ایک نظر : ص ۱۶۶)
امام بخاری رحمہ اللہ نے کیا فرمایا ؟اس کی وضاحت سے پہلے جناب ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم کی عبارت ملاحظہ ہو۔ ’’حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ، امام دارقطنی رحمہ اللہ اور امام ابو داؤد وغیرہ فرماتے