کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 62
سنن نسائی کی سند:
’’ اسحاق بن ابراہیم قال حدثنا جریر عن منصور عن ابی معشر زیاد بن کلیب عن ابراہیم عن علقمۃ عن القرثع۔‘‘ (نسائی : رقم ۱۴۰۴)
مسند امام احمد میں حتی یقضی الامام صلا تہ ہے اور نسائی میں حتی یقضی صلا تہہے۔طحاوی ( ج ۱ ص ۲۵۳) میں یہی روایت ابوعوانۃ عن المغیرۃ عن ابراہیم ۔۔الخ کی سند سے ہے اور اس میں بھی حتی یقضی الامام صلا تہ کے الفاظ ہیں اور حاکم (ج ۱ ص ۲۷۷) میں سنن نسائی کی سند یعنی جریر عن منصورعن ابی معشر عن ابراہیم کی سند سے ہے اور اس میں حتی یقضی صلا تہ ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے کہ صحیح الاسناد واحتج الشیخان بجمیع رواتہ غیر قرثع ۔الخ اس کی سند صحیح ہے اور قرثع کے علاوہ اس کے تمام راویوں سے بخاری و مسلم نے استدلال کیا ہے اور قرثع زہاد تابعین میں سے ہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صدوق کہا ہے۔(تقریب: ص ۴۲۴) چنانچہ مسند احمد وغیرہ کی سند بھی صحیح ہے اس لیے سند کے اعتبار سے ڈیروی صاحب کا مجمل اعتراض سراسر دھوکا پر مبنی ہے۔اسی طرح مسند احمد میں حتی یقضی الامام صلا تہ کے الفاظ جناب ڈیروی صاحب کے معنوی وساوس کے ازالہ کے لیے کافی ہیں۔
یہی نہیں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ہی انصات کے معنی ترک جہر لیا ہے ۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ بھی یہی کچھ فرماتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوایوب کی روایت(جسے امام احمد رحمہ اللہ ، بیہقی رحمہ اللہ اور طبرانی نے عمران بن ابی یحیی عن عبداللّٰه بن کعب عن ابی ایوب کی سند سے ذکر کیا ہے) نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’اہل عرب کے ہاں انصات کے معنی آپس کے مکالمہ سے انصات مراد ہوتا ہے قراء ت قرآن اورذکر و دعا مراد نہیں ہوتی جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ لوگ نماز میں کلام کرتے تھے تو آیت﴿ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا ﴾نازل ہوئی۔ چنانچہ آیت میں مکالمہ سے اور لوگوں کو باتیں