کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 61
صاحب کی پیش کردہ روایات غلط ہیں ۔ سند کے لحاظ سے اور ان کے ترجمہ میں جناب اثری صاحب نے تحریف کا ارتکاب کیا ہے جو ان کا آبائی پیشہ ہے(ایک نظر: ص ۱۱۸،۱۱۹) تو ہم اس پر یہی کہیں گے کہ ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے اس کا ترجمہ غلط کیوں ہے ؟ اور ’’ حتی یصلی‘‘ کا ترجمہ ’’شروع کرنا‘‘ کیونکر درست ہے ؟ تاج العروس یا لسان العرب وغیرہ تو جانے دیجیے کیا ڈیروی صاحب نے المنجد کی طرف بھی مراجعت نہیں کی کہ یہ حرف جر ’’ تدل علی الانتہاء‘‘ انتہاپر دلالت کرتا ہے۔(المنجد :ص ۱۱۷) بلکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے پہلی دونوں روایات کے بعد فرمایا ہے کہ بعض روایات میں تو صراحۃً ’’ ثمّ ینصت حتی یقضی الامام صلا تہ ‘‘ ہے کہ پھر وہ خاموش رہے، یہاں تک کہ امام اپنی نماز پوری کر لے۔ (کتاب القراء ۃ : ص ۸۴) اور یہی روایت مسند امام احمد (ج ۵ ص ۴۳۹،۴۴۰) اور نسائی (ص ۱۶۵، رقم :۱۴۰۴) میں بھی صحیح سند سے منقول ہے۔ بتلائیے! معنی کو اثری نے بگاڑا ہے یا ڈیروی صاحب نے ؟ دوسری روایات میں اگر انصت حتی یفرغ من خطبتہ ہے تواس کا کیا یہ مفہوم ہے کہ خطبہ تک تو خاموش رہے پھر نماز شروع ہو تو بولنا شروع کر دے؟ حالانکہ یہ مفہوم ڈیروی صاحب بھی تسلیم نہیں کرتے۔ تو امام بیہقی رحمہ اللہ وغیرہ کے کہنے کے مطابق انصات کے معنی ترک جہر کیوں نہیں لے لیتے تاکہ دونوں روایتوں کا مفہوم واضح ہو جائے۔ رہا سند کا معاملہ توآئیے ! مسند امام احمد کی سند ملاحظہ ہو۔ ’’ ثنا عفان ثنا ابوعوانۃ عن مغیرۃ عن ابی معشر عن ابراہیم عن علقمۃ عن قرثع الضبی عن سلمان الفارسی۔ ‘‘ (احمد: ج ۵ ص ۴۴۰) دوسری سند: ’’ ہشیم عن مغیرۃ عن ابی معشر عن ابراہیم بہ۔ ‘‘ (احمد: ج ۵ ص ۴۳۹)