کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 60
حبان کا ثقات میں ذ کرکرکے یخطئ کہنا اس کی حدیث کی تحسین و تصحیح کے منافی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود امام ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں ان سے روایت لی ہے۔ (اکمال : ج ۱ ص ۱۷) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے ’’ صدوق کان یحفظ ثم کبر فصار کتابہ اثبت من حفظہ ‘‘ کہ وہ صدوق حافظ تھے۔ پھر بڑے ہوئے توان کی کتاب ان کے حفظ سے اثبت ہو گئی۔ (تقریب: ص ۵) اس سے یہ کب لازم آیا کہ ان کے حفظ کی روایات کمزور اور ضعیف ہیں۔ اگر ان کی روایت ثقات کے منافی ہو یا اس میں وہم ثابت ہو پھر تو کہا جا سکتا ہے کہ اس روایت کو انھوں نے آخری عمر میں بیان کیا ہوگا۔ یوں نہیں کہ آنکھیں بند کرکے ان کی تمام روایات پر خط تنسیخ کھینچ دیا جائے۔ زیر بحث روایت میں تو امام احمد رحمہ اللہ ان کے ہمنوا ہیں۔ اس لیے احمد رحمہ اللہ بن الازہر پر اعتراض محض دھوکا اور بے خبری پر مبنی ہے۔
۵۔۔ اسی طرح جنا ب شیخ الحدیث صاحب کو عمران بن ابی یحییٰ کا ترجمہ نہیں ملا۔ ہم عرض کیے دیتے ہیں۔ اس کا ترجمہ امام بخاری نے التاریخ الکبیر(ج ۳ ص ۴۱۹ ق ۲) میں ،ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے الجرح والتعدیل (ج ۳ ص ۳۰۷ ق ۱) میں،ابن حبان نے الثقات (ج ۷ ص ۲۴۰) میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تعجیل المنفعہ (ص ۳۲۰) میں ذکر کیا ہے اور اسی روایت کے بارے میں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں رجالہ ثقات (المجمع : ج ۲ ص ۱۷۱)۔ عمران تبع تابعین میں سے ہیں۔ اس طبقہ کے تومستور بلکہ مجہول بھی حنفی اصول میں مقبول ہیں۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے الصحیح (ج ۳ ص ۱۳۸) میں یہ روایت ذکر کی ا ور حاشیہ میں علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ روایات حسن ، صحیح ہیں مگر ضد کا کوئی علاج نہیں۔
سترہواں دھوکا
انصات کا مفہوم
اسی طرح جناب ڈیروی صاحب کا یہ فرمانا کہ اثری صاحب نے ’’ ثم أنصت اذا خرج الامام حتی یصلی‘‘ کا جو معنی کیا ہے کہ امام نماز سے فارغ ہوجائے، غلط ہے۔ یہ معنی ایجاد بندہ ہے ، صحیح ترجمہ یہ ہے کہ یہاں تک کہ امام نمازشروع کر دے اور اثری