کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 58
شیخ الحدیث صاحب اور ان کے حواریوں سے مزید عرض ہے کہ یہ روایت امام ابو داؤد نے سنن (ج ۱ ص ۱۳۵ مع العون) اور ابن حبان نے اپنی صحیح (ج ۴ ص ۹۵) میں بھی ذکر کی ہے۔ اس لیے احمد رحمہ اللہ بن جعفر پر اعتراض بے کار ہے۔
اس کے باوجود احمد بن جعفر رحمہ اللہ کے اختلاط پر اگر ڈیروی صاحب بضد ہیں تو عرض ہے علامہ عراقی نے صراحت کی ہے کہ امام ابوعبدالله الحاکم نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ہے۔(التقیید والایضاح :ص ۴۶۵، نہایۃ الاغتباط :ص ۳۹، الکواکب النیرات : ص ۹۶) اور یہ روایت بھی امام بیہقی رحمہ اللہ نے انہی کے واسطہ سے بیان کی ہے۔ لہٰذا ہر اعتبار سے احمد رحمہ اللہ بن جعفر پر اعتراض غلط ، بے خبری اور دھوکا پر مبنی ہے۔
۲۔۔محمد بن اسحاق نے اس روایت میں حدثنی محمد بن ابراہیم کہا ہے اور محمدبن اسحاق ثقہ و صدوق ہے جس کی تفصیل توضیح میں موجود ہے۔ یہی جمہور کی رائے ہے اور اس کی روایت معنعن نہ ہو تو حسن صحیح ہے۔ مگر ضد و تعصب کا علاج ہمارے بس میں نہیں ۔ ڈیروی صاحب کی عصبیت دیکھیے ، لکھتے ہیں: ابن اسحاق ’’مشہور دلاّ ہے۔‘‘(ص ۱۱۷) حالانکہ قاضی ابویوسف کے وہ استاد ہیں اور خود حنفی اکابرین نے کہا ہے کہ عدل اور انصاف کی بات یہی ہے کہ وہ صدوق و ثقہ ہے۔ اس لیے اس کے خلاف جو کچھ ہے بے انصافی اور ضد پر مبنی ہے۔
۳۔۔ دوسری سند میں بھی محمد بن اسحاق ہے۔ کتابت کی غلطی سے ابن اسحا ق کی بجائے ابواسحاق لکھ دیا گیا۔ امام احمد نے مسند (ج ۵ ص ۴۲۰) میں یہی روایت ’’یعقوب بن ابراہیم بن سعد ثنا ابی ‘‘ سے اسی سند سے بیان کی ہے اور وہاں صراحۃً محمد بن اسحاق ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اطراف المسند رقم ۷۷۱۶(ص ۵۱،۵۲ ج ۶) میں یہی روایت ذکر کی اور اس میں بھی محمد بن اسحاق ہے۔ علاوہ ازیں طبرانی کبیر(ج ۴ ص ۱۹۲)اور صحیح ابن خزیمہ( ج ۳ ص ۱۳۸) میں بھی ابراہیم کی سند میں ابن اسحاق ہے ۔
ابراہیم بن سعد رحمہ اللہ پر تحریف کا الزام
جناب ڈیروی صاحب کی یہ ہرزہ سرائی کہ ’’ابراہیم بن سعد نے عن ابی اسحاق بنا دیا