کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 57
کی جہالت نظر نہ آنے کا الزام کس قدر دھوکابازی اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ علاوہ ازیں امام ابن حبان نے کتاب الثقات (ص ۵۲ ج ۷) میں عبدالله بن عمرو بن حارث کو مستقیم الامر فی الحدیث قراردیا ہے۔ سولہواں دھوکا راقم اثیم نے کتاب القراء ۃ (ص ۸۴) وغیرہ کے حوالہ سے انصات کے معنی متعین کرنے کے لیے ایک روایت ذکر کی اور کہا کہ صحیح احادیث میں ہے(توضیح : ج ۲ ص ۲۰۷ گیارہواں جواب) جس کے متعلق جناب ڈیروی صاحب کے وساوس کا خلاصہ یہ ہے : (۱)اس کی سند کا ایک راوی احمد بن جعفر القطیعی مختلط ہے۔ (۲)اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے۔ (۳) دوسری سند میں بھی محمد بن اسحاق ہے جو مشہور دلا ہے مگر ابراہیم بن سعد نے اس کو ابن اسحاق کی بجائے عن ابی اسحاق بنا دیا اور ابن اسحاق کو چھپانے کے لیے یہ ایسی کارروائی کرنے کا مریض نظر آتا ہے۔ (۴)۔اس میں ایک راوی ابواالازہر النیسابوری ہے جو کہ ثقہ ہے مگر بڑھاپے کی حالت میں بھول جاتا تھا۔ (۵)۔اس کی سند میں عمران بن ابی یحییٰ کون ہے؟ اس کا ترجمہ درکار ہے۔ (ایک نظر: ص ۱۱۶ تا ۱۱۸) اب نمبروار ان وساوس کی حقیقت معلوم کریں۔ ۱۔۔احمد بن جعفرالقطیعی پر سرے سے اعتراض ہی فضول اور خالص دھوکا پر مبنی ہے کیونکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہ روایت امام احمد کے واسطے سے نقل کی ہے اور ڈیروی صاحب نے بھی اس کی سند ذکر کی ’’ اخبرنا ابوعبداللّٰه الحافظ انا احمد بن جعفر القطیعی نا عبداللّٰه بن احمد بن حنبل حدثنی أبی‘‘ اور یہی روایت مسند امام احمد (ج ۳ ص ۸۱) میں ’’ عبداللّٰه حدثنی ابی‘‘ کی سند سے موجود ہے۔ انتہائی تعجب ہے کہ جناب شیخ الحدیث ڈیروی صاحب اتنی واضح سی بات بھی سمجھ نہیں سکے۔ انّا للّٰہ و انّا اِلیہ راجعون۔