کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 55
ہے اس میں فرمایا ہے محمد رحمہ اللہ بن حمیر قضاعی سلیحی حمصی جس کی کنیت ابوعبدالحمید ہے اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الصحیح میں احتجاج کیا ہے۔‘‘حافظ ابوالفضل محمد بن طاہر ابن القیسرانی کی الجمع فی رجال البخاری ومسلم (ج ۲ ص ۴۵۸) سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری نے محمد رحمہ اللہ بن حمیرسے دو روایتیں لی ہیں۔ اسی کی طرف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے۔ایک باب ہجرۃ النبی صلي اللّٰه عليه وسلم واصحابہ الی المدینۃ (مع الفتح : ج ۷ ص ۲۵۶) میں اور دوسری کتاب الذبائح باب جلود المیتۃ (مع الفتح: ج ۹ ص ۶۵۸) میں، دوسری روایت کے بارے میں تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صراحت کر دی ہے کہ یہ متابعۃً ہے۔ اصول میں نہیں۔ البتہ امام بخاری پہلی روایت میں محمد رحمہ اللہ بن حمیرکی روایت پہلے لائے ہیں ۔ پھر اس کا متابع بھی ذکر کیا ہے ۔ والله اعلم ۔
یہی نہیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن جوزی رحمہ اللہ پر اس روایت کو موضوعات میں ذکر کرنے پر نکیر کی اور اس سلسلے میں ان کے تسامحات میں سے اسے سب سے زیادہ قبیح مثال قرار دیا۔ ان سے پہلے علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس پر گرفت کی اور تاریخ میں علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کے اس رویے کی تردید کی جو محض ضعیف، لیس بالقوی کی جرح سے راوی کی روایت کو موضوعات میں ذکر کر دیتے ہیں۔ اور ان کی اس قسم کی جسارتوں میں سے ایک یہی حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جسے امام یعقوب بن سفیان کے اس قول کی بنا پر کہ محمد بن حمیر لیس بالقوی ہے، موضوعات میں نقل کر دیا ہے۔ حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے اپنی صحیح میں روایت لی ہے ۔ا مام احمد رحمہ اللہ اور امام ابن معین رحمہ اللہ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں:
فمن ذلک انہ أورد حدیث ابی امامۃ فی قراء ۃ آیۃ الکرسی بعد الصلٰوۃ لقول یعقوب بن سفیان فی روایۃ محمد بن حمید (حمیر) لیس بالقوی و محمد ھذا روی لہ البخاری فی صحیحہ ووثقہ احمد و ابن معین ۔ (اللآلی : ج۱ ص ۲۳۱)
یہی کچھ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے النکت البدیعات (ص ۵۷،۵۸) میں فرمایا ہے۔