کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 54
ابوالحسن علی شرط البخاری کہتے ہیں(الترغیب : ج ۴ ص ۴۵۳) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے السلسلۃ الصحیحۃ رقم :۹۷۲ میں صحیح کہا ہے۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اسی محمد رحمہ اللہ بن حمیر کی بنا پر اس روایت کو موضوعات (ج ۱ ص ۲۴۴) میں ذکر کیا اور کہا کہ یعقوب رحمہ اللہ بن سفیان نے کہا ہے کہ وہ ’’لیس بالقوی ‘‘ ہے کس قدر تعجب ہے کہ جس راوی پر بقول ان کے جرح کی کل کائنات یہی لیس بالقوی ہے وہ بھی علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کے ہاں موضوعات میں ذکر کرنے کے قابل ہے ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔! ان کے اسی نوعیت کے اقدام پر ہی انھیں وضع کا حکم لگانے میں متشدد قرار دیا گیا ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ ان پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کلا بل قوی ثقۃ من رجال البخاری والحدیث صحیح علی شرطہ وقد أخرجہ النسائی و ابن حبان فی صحیحہ و ابن السنی فی عمل یوم ولیلۃ و صححہ أیضاًالضیاء المقدسی فی المختارۃ و قال الحافظ ابن حجر فی تخریج احادیث مشکٰوۃ غفل ابن الجوزی فأورد ھذا الحدیث فی الموضوعات وھو من أسمج ما وقع لہ ، وقال الحافظ شرف الدین الدمیاطی فی جزء جمعہ فی تقویۃ ھذا الحدیث محمد بن حمیر القضاعی السلیحی الحمصی کنیتہ أبو عبدالحمید احتج بہ البخاری فی صحیحہ۔۔الخ (اللآلی : ج ۱ ص ۲۳۰)
’’یعنی محمد رحمہ اللہ بن حمیر لیس بالقوی ہرگز نہیں بلکہ قوی، ثقہ، رجال بخاری میں سے ہے اور حدیث بخاری کی شرط پر صحیح ہے ۔ اس کی تخریج نسائی نے اور ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اور ابن السنی نے عمل الیوم واللیلۃ میں کی ہے۔ حافظ ضیاء المقدسی نے بھی اسے المختارہ میں صحیح کہا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مشکوٰۃ کی تخریج میں کہا ہے کہ ابن الجوزی سے غفلت ہوئی جو اس حدیث کو موضوعات میں ذکر کیاا ور یہ بہت ہی قبیح بات ہے جواس حوالے سے ان سے واقع ہوئی ۔ اور حافظ شرف الدین دمیاطی نے اس حدیث کی تقویت میں جو رسالہ لکھا