کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 53
روایت کیا ہے اورحسن بن علی المعمری بھی عمروبن عثمان سے یہی روایت کرتے ہیں جب کہ ایک جماعت نے ان کی متابعت کی ہے توا ن کے یہاں بھی وہمی ہونے کا دعویٰ سراسر غلط اور دھوکا پر مبنی ہے۔ رہے محمد رحمہ اللہ بن حمیر تواس کی توثیق توضیح جلد اول میں چوتھی حدیث کے تحت ذکر کر چکے ہیں، بلکہ مولانا صفدر صاحب کے مسلمات کی روشنی میں اس پر جرح کا جواب بھی ذکر کر دیا گیا ہے، اگر اس پر کوئی اعتراض تھا تو جناب ڈیروی صاحب اپنے شیخ مکرم کادفاع کرتے ۔ یہ توان سے ہو نہیں سکا۔بس حق شاگردی ادا کرتے ہوئے جرح نقل کر دی۔ چنانچہ جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لہ غرائب وافراد اس کی ایسی روایتیں ہیں جن میں وہ منفرد ہوتا ہے۔‘‘ اثری صاحب کو محمد بن حمیر کا تفرد بھی نظر نہیں آیا(ایک نظر: ص ۱۹۰) ہم عرض کر چکے ہیں کہ جناب ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم فرماتے ہیں: ’’ صاحب غرائب وافراد‘‘ہونا اصول حدیث کے لحاظ سے کوئی جرح نہیں۔‘‘ (احسن : ج ۱ ص ۲۲۱) ان کی اس وضاحت کے بعد اس حوالے سے اعتراض استاد شاگرد کی کیا بے اصولی نہیں ؟ مزید عرض ہے کہ خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حدیثہ یعد فی الحسان وقد انفرد بأحادیث منھا مارواہ ابن حبان فی صحیحہ لہ عن محمد بن زیاد عن ابی امامۃ عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم من قرأ آیۃ الکرسی دبر کل صلاۃ مکتوبۃ لم یکن بینہ و بین ان یدخل الجنۃ الا ان یموت۔ (السیر : ج ۹ ص ۲۳۵) محمد رحمہ اللہ بن حمیر کی حدیث حسن شمار کی جاتی ہے اور وہ بہت سی احادیث میں اکیلا ہے۔ انہی میں ایک وہ ہے جسے ابن حبان نے اپنی صحیح میں اس سے بواسطہ محمد بن زیاد عن ابی امامہ روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ جو ہرفرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھتا ہے اس کے اور جنت میں داخل ہونے کے درمیان صرف موت حائل ہے۔ لیجیے جناب ! محمد رحمہ اللہ بن حمیر کی اس روایت کو جس میں وہ منفرد ہے علامہ ذہبی رحمہ اللہ حسن کہتے ہیں۔ا مام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے صحیح میں ذکر کیا۔ علامہ المنذری اس کی سند کو صحیح اورا ن کے شیخ