کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 52
ان ترکت فقد ترکہ ناس یقتدی بھم و ان قرأت فقد قرأہ ناس یقتدی بھم ۔(موطا محمد : ص ۹۶)
’’کہ ا گر تم قراء ت نہ کرو تو بہت سے ایسے لوگوں نے قراء ت نہیں کی جن کی اقتداء کی جاتی ہے اور اگر تم قراء ت کرو تو بہت سے ان لوگوں نے قراء ت کی جن کی اقتداء کی جاتی ہے۔ ‘‘جن کی اقتداء کی جاتی ہے وہ شاید ڈیروی صاحب کے نزدیک مجہول ہی ہوں۔ ہم تو انھیں مجہول نہیں کہتے۔ مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے بین السطور فرمایا ہے اس سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ لہٰذا ’’ رجال ائمۃ‘‘ بڑے بڑے ائمہ کو مجہول کہنا دھوکا نہیں تو اور کیا ہے ؟
پندرہواں دھوکا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت اذ قرأ فانصتوا کے الفاظ سے مروی ہے۔ جس پر توضیح الکلام جلد دوم میں تیسری حدیث کے تحت بحث دیکھی جا سکتی ہے۔ اس روایت کے بارے میں اس عاجز کا تضاد بیان کرتے ہوئے جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:
’’اثری صاحب فرماتے ہیں یہ روایت حسن بن علی المعمری رحمہ اللہ کی غلطی کا نتیجہ ہے۔ (توضیح : ج ۲ ص ۳۵۹) اس حدیث میں اثری صاحب نے المعمری رحمہ اللہ کو وہمی قرار دیا ہے مگر(ج۱ ص ۳۴۳) میں کتاب القراء ۃ (ص ۴۱) کے حوالے سے جو روایت ہے وہاں بھی المعمری رحمہ اللہ ہے۔ اس پر جرح نہیں کرتے، اس سند میں محمد بن حمیر متکلم فیہ راوی ہے۔ نیز عبدالله بن عمرو بن حارث مجہول ہے۔ (ملخصًاایک نظر: ص ۱۸۹،۱۹۰)
توضیح الکلام میں اور ابھی چند صفحات پہلے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں حسن المعمری رحمہ اللہ کے وہم کی تفصیل بیان ہو چکی ہے کہ اس میں ان کے وہم کی نشاندہی امام عبدان رحمہ اللہ نے ، نیز امام ابن عدی رحمہ اللہ ، امام بیہقی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کی اور ثقہ کے وہم و خطا کا ہونا ناممکنات میں سے نہیں۔ اس لیے راقم نے بھی ان کی اس غلطی کا ذکر کیا مگر توضیح الکلام (ج۱ ص ۳۴۳) میں مذکورالمعمری رحمہ اللہ کے واسطے سے کتاب القراء ۃ (ص ۴۱) کی روایت کے بارے میں کسی محدث نے انھیں وہمی نہیں کہا بلکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے صاف فرمایا ہے کہ: ھکذا رواہ جماعۃ عن عمرو بن عثمان الحمصی کہ اسی طرح عمرو بن عثمان رحمہ اللہ حمصی سے ایک جماعت نے