کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 50
و حفظ میں کمزور تھے۔ (تہذیب : ج ۳ ص ۸۴) امام عمرو بن علی الفلاس فرماتے :وہ ضعیف ہے اور اسی بنا پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے : صدوق یخطئ(تقریب : ص ۱۳۴) حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ’’ صدوق ضعفہ الفلاس وقواہ احمد وس وجماعۃ‘‘ (المغنی: ج ۱ ص ۲۰۱) اور ایسے راوی کی روایت حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی۔ جعفر بن برقان بھی صدوق ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ صدوق یھم فی حدیث الزھری ‘‘ (تقریب: ص ۸۰) صدوق ہے، زہری رحمہ اللہ سے روایت کرنے میں وہم کا شکار ہو جاتے ہیں مگر یہاں ان کے استاد امام زہری رحمہ اللہ نہیں بلکہ عقبہ بن نافع ہیں۔ اس وضاحت سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے جو اسے جید کہا ہے وہ بے جا نہیں بلکہ مبنی برحقیقت ہے اور ڈیروی صاحب کا انکار محض ضد کا نتیجہ ہے۔ تیرہواں دھوکا جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں کہ اثری صاحب کا یہ صریح دعویٰ کرنا کہ حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ ظہر و عصر کی نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت کرتے تھے ، خالص جھوٹ پر مبنی ہے۔(ایک نظر: ص ۷۹) ڈیروی صاحب نے یہاں بھی اپنے حواریوں کو دھوکا میں مبتلا کیا ہے کہ یہ دعویٰ جو اثری صاحب نے کیا ہے خالص جھوٹ پر مبنی ہے۔ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ دعویٰ امام مالک رحمہ اللہ ،علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ، علامہ البغوی رحمہ اللہ ، علامہ ابن حزم رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے۔ (التمہید ، الاستذکار، شرح السنۃ، المحلی، کتا ب القراء ۃ)۔ کیا خالص جھوٹ کا یہ ’’تمغا‘‘ ان حضرات کے لیے بھی سزاوار ہے یا تنہا غریب اثری ہی اس کا حق دار ہے؟ نہ تنہا من دریں مے خانہ مستم جنید و شبلی و عطار ہم مست چودہواں دھوکا راقم نے حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر نقل کیا جس میں قاسم رحمہ اللہ بن محمد فرماتے ہیں کہ بڑے