کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 49
ضد چھوڑیے بر سر میدان آئیے
انکار ہی رہے گا میری جاں ! کب تلک
رہی بات ’’حسن بن شعیب المعمری ‘‘بنا دینے کی تو جناب من! حقیقت کو بدلنے والے ہر سیدھی بات کو بھی بدلا ہوا ہی محسوس کرتے ہیں۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے ہی فرمایا ہے: ’’ اخرجہ الحسن بن شبیب المعمری کہ اس کی تخریج حسن بن شبیب معمری نے کی ہے۔ اس لیے اثری نے کچھ نہیں بدلا البتہ شبیب کی جگہ شعیب کتابت کی غلطی ہے۔
ڈیروی صاحب مزید فرماتے ہیں :’’اس اثر کی باقی سند کا کوئی علم نہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی سند میں کوئی راوی مدلس بھی واقع ہو۔‘‘ (ایک نظر :ص ۷۸) اولاً تو ہم ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم کا اصول ذکر کرتے ہیں تاکہ ان کی تشفی ہو سکے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں:’’ جب علامہ ہیثمی وغیرہ اس کو صحیح اور جید کہتے ہیں تواصول حدیث کی رو سے صحت کے لیے اتصال سند بھی ضروری امر ہے۔ لہٰذا اتصال سند بھی ثابت ہوا۔(تسکین الصدور :ص ۲۴۴) لہٰذا جب علامہ سخاوی رحمہ اللہ اسے جید کہتے ہیں تواس صفدری اصول کے مطابق وہ متصل بھی ہے ۔ تدلیس و انقطاع کا اعتراض درست نہیں۔
ثانیاً: ہم اس کی سند بھی پیش کیے دیتے ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس اثر کے آخری حصہ کو ذکر کرتے ہوئے اس کی سند بھی بیان کر دی ہے کہ المعمری فرماتے ہیں: ثنا علی بن میمون ثنا خالد بن حیان عن جعفر بن برقان عن عقبۃ بن نافع عن ابن عمر۔(جلاء الافہام :ص ۲۶۶)
اب اس کا سلسلہ سند دیکھیے ۔ علی رضی اللہ عنہ بن میمون الرقی العطار ثقہ ہیں۔ (تقریب: ص ۳۷۶) ان کے استاد خالد بن حیان الرقی (جلاء الافہام میں خالد بن حبان ہے جو کہ صحیح نہیں) اور خالد امام احمد وغیرہ کے استاد ہیں اور صدوق ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا ہے ’’ لم یکن بہ بأس ‘‘ ابن معین، ابن عمار، ابن حبان ، ابن سعد اور الدولابی نے ثقہ کہا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:لیس بہ بأس ، ابن خراش اور دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لابأس بہ، علی رحمہ اللہ بن میمون فرماتے ہیں:’’ کان منکرا‘‘ خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ اس کامفہوم یہ ہے کہ وہ ضبط