کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 48
الامام فانصتوا صحیح نہیں۔ یہ حسن المعمری کی غلطی کا نتیجہ ہے۔ وہ اگرچہ ثقہ اور صدوق اور حافظ تھے مگر متون حدیث میں غلطی سے کچھ لفظ بڑھا دیا کرتے اور موقوف کو مرفوع بیان کر دیا کرتے تھے۔ (توضیح : ج ۲ ص ۳۵۹) اور اثری صاحب نے اس راوی کا نام چھپانے کے لیے تحریف کرتے ہوئے یوں بدل دیا یہ اثر ’’محدث حسن بن شعیب المعمری المتوفی ۲۹۵ھ ‘‘تاکہ قارئین کرام کو پتا نہ چل سکے کہ یہ وہی راوی ہے جس پر جرح کی گئی ہے۔(ایک نظر :ص ۷۸)۔ یہی اعتراض ص ۱۹۰، ۱۹۱ پر بھی ہے حالانکہ ہم نے یہ اثر القول البدیع کے حوالہ سے ذکر کیا اور نقل کیا کہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:’’ سند جید‘‘ کہ اس کی سند جید ہے۔ بلکہ یہ بھی کہ ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم فرماتے ہیں جید اور صحیح میں چنداں فرق نہیں ہوتا۔ اب اس کے برعکس چاہیے تو یہ تھا کہ ڈیروی صاحب عقبہ بن نافع کا ضعف بیان کرتے مگر الٹا یہ کہہ دیا کہ اس کا ترجمہ ذکر نہیں کیا گیا۔ سند جید کے بعد ہم نے تواس کی ضرورت محسوس نہ کی لیکن اس سے تشفی نہیں ہوئی تو عرض ہے : یہ عقبہ بن نافع الفہری ہیں جو حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ا ور التاریخ الکبیر (ج۳ ص ۴۳۴ ق ۲) الجرح والتعدیل (ج ۳ ص ۳۱۷ ق ۱) ، الثقات لابن حبان (ج ۵ ص ۲۲۷) ،السیر( ج ۳ ص ۵۳۲) وغیرہ میں ان کا تذکرہ موجود ہے۔ رہے حسن بن علی بن شبیب المعمری تو ان کے متعلق ہم نے باحوالہ لکھا ہے کہ وہ ثقہ و صدوق اور حافظ تھے مگر متون سے ان سے کچھ خطائیں ہوئی اور انہی خطاؤں میں ایک یہ روایت ’’ واذا قرأ فأنصتوا‘‘ کی ہے، جیسا کہ امام عبدان بن محمد نے فرمایا۔ امام ابن عدی نے الکامل (ج ۲ ص ۷۴۹) میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان ( ج ۲ ص ۲۲۴) میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ اس لیے راقم نے جو کہا متقدمین کے فیصلے کے مطابق درست کہا اور حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کے زیر بحث اثر کے بارے میں بھی علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی سندجید ہے۔ اب اگر جناب ڈیروی صاحب یہ ثابت کر دیں کہ فلاں محدث نے کہا ہے کہ اس اثر میں بھی حسن بن علی سے خطا ہوئی ہے تو چشم ما روشن دل ما شاد۔ لیکن اگر یہ نہیں اور یقینا نہیں تو ؎