کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 47
’’ لا‘‘ ،نہ پڑھو۔ گویااس کا تعلق خلف الامام سے ہے،ظہر و عصرمیں مطلقاً قراء ت کے بارے میں نہیں۔ مولانا صفدر صاحب نے بھی یہ اثر اسی مفہوم میں نقل کیا ہے۔(احسن : ج ۱ ص ۳۲۴) طحاوی کی سند میں شجاع بن ولید ہیں اور وہ گو صدوق ہیں مگر ’’ لہ اوھام‘‘ اس کے کچھ اوہام بھی ہیں۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ اس اختصار میں ان سے وہم ہوا ہو جب کہ فضل بن دکین جو ثقہ و ثبت ہیں وہ اسے خلف الامام کے بارے میں بتلاتے ہیں۔ لہٰذا علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ہم نوائی میں جو سوید بن غفلہ کا نام لیا ہے یہ قطعاً درست نہیں اور راقم کا یہ کہنا کہ خیر القرون میں حالت انفراد میں کسی نے بھی سری نمازوں میں قراء ت کا انکار نہیں کیا ، اپنی جگہ صحیح ثابت ہوا۔ رہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما توا ن سے رجوع ثابت ہے بلکہ وہ تو خلف الامام بھی فاتحہ پڑھنے کے قائل ہو گئے تھے۔ اسی طرح توضیح (ص ۵۲۷ ج ۱) کے حوالہ سے حضرت عقبہ رحمہ اللہ بن نافع کا قول ہے کہ ’’ہم ائمہ کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ قراء ت نہیں کرتے‘‘ اس کا تعلق بھی سری نمازوں میں قراء ت خلف الامام سے ہے نہ کہ منفرد کے لیے۔ اس لیے جناب ڈیروی صاحب کا یہ اثر پیش کرنا بھی فضول ہے۔ علاوہ ازیں حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو مولانا محمد یوسف بنوری نے قراء ت خلف الامام پر ہی محمول کیا ہے۔ جیسا کہ معارف السنن (ج ۳ ص ۱۹۳) کے حوالہ سے ہم توضیح (ج ۱ ص ۵۲۶) میں نقل کر آئے ہیں۔ جناب ڈیروی صاحب ہماری اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی بات تسلیم نہ کریں کم از کم اپنے اکابر کی تو مان لیں۔ بارہواں دھوکا راقم اثیم نے حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر نقل کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سری نمازوں میں قراء ت خلف الامام کے قائل تھے ۔(توضیح : ج ۱ ص ۵۲۷) جس کے بارے میں ہمارے مہربان جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں : اس کی سند میں اولاً توعقبہ بن نافع ہیں ، اس کا ترجمہ ذکر نہیں کیا گیا۔ نیز اس سند میں حسن بن علی بن شبیب المعمری ہے جس کے بارے میں اثری صاحب خود لکھتے ہیں : یہ روایت اذا قرأ