کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 46
۷۵) یہی اعتراض ایک دوسرے انداز سے ص ۲۱۷ میں بھی دہرایا ہے۔
حالانکہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ پہلے ظہر و عصر میں قراء ت کے قائل نہ تھے بعد میں قائل ہو گئے۔ جب کوئی امام یا مجتہد اپنے پہلے موقف سے رجوع کرلے تو اس کے مرجوح قول کو حوالہ کے طور پر پیش کرنا اور اس کا سہارا لینا کہاں کا انصاف ہے؟
لطیفہ : ع - اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کا عدم قراء ت کے بارے میں اثر دو سندوں سے ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: فذھب قوم الی ھذہ الآثار التی روینا ھا فقلدوھا وقالوا ۔الخ۔ راقم اثیم نے اس عبارت کا مفہوم توضیح (ج ۲ ص ۷۲۵) میں ذکر کیا جس پر جناب ڈیروی صاحب کی رگ تقلید پھڑک اٹھی کہ اثری صاحب نے فقلدوھاکا مفہوم چھوڑدیا۔ یہ انھوں نے خیانت کرتے ہوئے اس لیے چھوڑا ہے کہ غیر مقلدین کا جھوٹا دعویٰ ہے کہ خیر القرون میں تقلید نہ تھی۔‘‘(ایک نظر : ص ۷۵) مگرجناب فقلدوھاکالفظ تو علامہ طحاوی رحمہ اللہ کا ہے خیر القرون میں حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ کے فتویٰ کی تقلید کرنے والے کا نہیں، اسے کہتے ہیں ع
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
مگر یہ بھی دیکھیے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی پیروی کرنے والے کون ہیں؟ جن کا حوالہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے دیا ہے ۔ چنانچہ اس سلسلے میں انھوں نے شجاع بن ولید عن زہیر بن معاویۃ عن الولید بن قیس کی سند سے حضرت سوید رحمہ اللہ بن غفلہ کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ میں نے سوید سے پوچھا: أیقرأ فی الظھر والعصر؟کیاظہر و عصر میں پڑھا جائے؟ تو انھوں نے فرمایا: نہیں۔ حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ یہ اثر ظہرو عصر میں قراء ت کے بارے میں نہیں بلکہ ظہر و عصر میں خلف الامام قراء ت کے بارے میں ہے۔ چنانچہ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے الفضل عن زہیر عن الولید کی سند ہی سے یہ اثر ان الفاظ سے نقل کیا ہے۔أقرأ خلف الامام فی الظھر والعصر کیا میں ظہر وعصر میں خلف الامام پڑھوں؟ تو انھوں نے فرمایا: