کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 45
اس لیے اس کی سند صحیح اور بے غبار ہے اور جناب ڈیروی صاحب کی کارروائی محض دھوکا پر مبنی ہے۔ علاوہ ازیں حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اثر امام ابن ابی شیبہ (مصنف : ج ۱ ص ۳۶۱) اور امام عبدالرزاق (ج ۲ ص ۹۴) نے ایوب عن ابی العالیہ کی سند سے بیان کیا ہے۔ اور سعید بن ابی عروبۃ بھی ایوب کا متابع طحاوی (ج۱ ص ۱۴۱) میں مذکور ہے۔ اس لیے سند کے اعتبار سے یہ اثر بالکل صحیح ہے۔
رہا ڈیروی صاحب کا یہ خدشہ کہ اس اثرکے متن میں بھی اضطراب ہے ۔ کیونکہ جزء القراء ۃ میں سورت فاتحہ پر اکتفا ہے۔ ولو بفاتحۃ الکتاب کتاب القراء ۃ میں ما تیسر بھی ہے کہ فاتحہ کے علاوہ بھی ضروری ہے جب کہ طحاوی میں أو ما تیسریعنی فاتحہ یا ما تیسر پڑھ لوں۔ یعنی فاتحہ ضروری نہیں۔ (ایک نظر :ص ۷۴)
حالانکہ جز ء القراء ۃ اور کتاب القراء ۃ کے الفاظ میں اضطراب نہیں۔ اضطراب وہاں ہوتا ہے جہاں تطبیق نہ ہو۔ یہاں تو بات بالکل واضح ہے کہ حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سری میں مقتدی کے لیے قراء ۃ خلف الامام کے قائل تھے۔ اس لیے فاتحہ اوراس سے زائد کا حکم معارض نہیں کیونکہ جہری میں تو فاتحہ سے زائد کی ممانعت ہے، سری میں نہیں۔ رہی طحاوی کی روایت تواس کے پاکستانی نسخہ میں اگرچہ ’’ وما تیسر‘‘ ہے مگر دارالکتب کے مطبوعہ نسخہ میں جس کی تحقیق شیخ محمد زہری النجار نے کی، اس میں ’’ أو ما تیسر‘‘ ہی ہے۔ طحاوی (ج ۱ ص ۲۰۶) اس لیے اضطراب کی یہ رٹ بھی بیکار ہے۔ا ور روایت سنداً و معنیً صحیح ہے۔
گیارہواں دھوکا
حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر پر ایک اعتراض یہ تھا کہ اس میں’’خلف الامام‘‘ کا ذکر نہیں جس کے جواب میں عرض کیا تھا کہ کیا خیر القرون میں حالت انفراد میں بھی کچھ حضرات قراء ت میں متردد تھے؟ جس پر ہمارے مہربان جناب ڈیروی صاحب نے یہ اعتراض اٹھایا کہ ’’خود اثری صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پہلے سری نمازوں میں مطلقاً قراء ت کے قائل نہ تھے اور امام طحاوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ایک جماعت انہی آثار کی بنا پر اس بات کی قائل تھی کہ ظہر و عصر میں بالکل قراء ت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ (ایک نظر :ص