کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 43
فرماتے ہیں وہاں سند میں خرابی ہوتی ہے یہ اصول خود ڈیروی صاحب نے ہدایہ علماء کی عدالت میں (ص ۱۵۶،۱۵۷) میں نقل کیا اور پھر اس پر جو اعتراض کیا اس کا جواب شائقین امام بخاری رحمہ اللہ پر بعض اعتراضات کا جائزہ (ص ۱۰۹) میں ملاحظہ فرمائیں۔ کیا یہی ایک سبب ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس کی بنا پر قال لی یا قال لناکہتے ہیں۔ یا کوئی اور سبب بھی ہے ڈیروی صاحب نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے یہاں اس سے اغماز کیا ہے۔ تو ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ یوں صرف سند کی خرابی کی بنا پر ہی نہیں کہتے بلکہ موقوف اثر کو بیان کرتے ہوئے بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فانہ لا یأتی بھذہ الصیغۃ الا فی المتابعات والشواہد او فی الاحادیث الموقوفۃ ۔الخ (تغلیق التعلیق :ج ۲ ص ۱۰)
امام بخاری رحمہ اللہ یہ صیغہ متابعات اور شواہد میں لاتے ہیں یا موقوف احادیث میں لاتے ہیں۔ اس کے لیے مزید ملاحظہ ہو (فتح الباری : ج ۱ ص ۱۸۸، ۳۳۵) وغیرہ۔ لہٰذا جب موقوف کے لیے بھی امام بخاری رحمہ اللہ یہ صیغہ استعمال کرتے ہیں تو اعتراض کیسا؟ ڈیروی صاحب پر لازم تھا کہ وہ اس کی سند میں ’’خرابی ‘‘بتلاتے ۔ لیجیے ہم اس کی سند کے بارے میں عرض کیے دیتے ہیں:
قال لنا ابونعیم حدثنا الحسین بن ابی الحسناء حدثنا ابوالعالیۃ فسألت ابن عمر۔ (جزء القراء ۃ : ص ۷)
ابونعیم امام بخاری رحمہ اللہ کے مشہور استاد امام فضل بن دکین ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ثقۃ ثبت(تقریب: ص ۴۱۵) ان کے استاد الحسین نہیں ۔ یہ کتابت یا ناسخ کی غلطی ہے۔ الحسن بن ابی الحسناء ہیں جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب القراء ۃ (ص ۱۴۷) میں نقل کیا ہے اور اس کا ترجمہ تہذیب وغیرہ میں موجود ہے اور اس پر علامت ’’ز‘‘ کی ہے جو اشارہ ہے کہ یہ جزء القراء ۃ کا راوی ہے بلکہ علامہ المزی نے تہذیب (ج ۴ص ۳۱۸) میں جزء القراء ۃ سے یہی روایت بھی ذکر کی ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: صدوق لم یصب الازدی فی تضعیفہ کہ یہ صدوق ہے ۔ امام ازدی رحمہ اللہ اس کی تضعیف میں حق بجانب نہیں