کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 42
عمر‘‘ نہیں بنایا۔ بلکہ انھوں نے تو دونوں کے درمیان اختلاف الفاظ کا ذکر کیا ہے کہ مصنف میں’’ ان ابن عمرکان یقول یُنصَت للامام ‘‘ ہے اور کتا ب القراء ۃ میں ’’ ان ابن عمر کان ینصت للامام‘‘ یعنی مصنف میں حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا اور کتاب القراء ۃ میں فعل کا ذکر ہے۔ قارئین کرام ! غور کیجیے جب دونوں کا وہ فرق بیان کر رہے ہیں تو کتاب القراء ۃ کے الفاظ ’’ ان ابن عمر‘‘ مصنف میں جوڑ دینے کا الزام دھوکا اور جھوٹ پر مبنی نہیں تو اور کیا ہے ؟
مزید برآں یہ تفصیل تو پہلے گزر چکی ہے کہ مصنف عبدالرزاق ہی کے حوالے سے علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ، علامہ زرقانی رحمہ اللہ اور مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے یہ اثر ذکر کیا اور ’’ ان ابن عمر‘‘ ہی نقل کیا۔ اس لیے جناب ڈیروی صاحب کا مولاناا عظمی مرحوم پر بہتان ہے کہ انھوں نے یہ الفاظ جوڑ دیئے ہیں۔
دسواں دھوکا
راقم اثیم نے جزء القراء ۃ وغیرہ کے حوالے سے حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر نقل کیا اور باحوالہ ذکر کیا کہ اس سے امام عبدان ، امام بیہقی رحمہ اللہ ،بلکہ مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم نے بھی استدلال کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا دوسرا قول یہ تھا کہ سری میں مقتدی کو فاتحہ پڑھنی چاہیے۔(توضیح :ج ۱ ص ۵۲۵،۵۲۶) جناب ڈیروی صاحب اس اثر کے متعلق لکھتے ہیں:
اثری صاحب نے اس کی سند کے بارے میں خاموشی اختیار کی، جزء القراء ۃ میں قال لنا ابو نعیم ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ قال لنا یا قال لی وہاں کہتے ہیں جہاں سند میں خرابی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اثری صاحب نے امام بخاری پر بعض اعتراضات کا جائزہ (ص ۱۰۹(میں لکھا ہے اور کتاب القراء ۃ کی سند بھی گڑ بڑ ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کے شیخ ابوبکر ثقہ نہیں۔ محمد بن عبدالله بن رستہ کا ترجمہ بھی ذکر کرنا چاہیے، اس کے متن میں بھی اعتراض ہے۔ (ملخصاً ایک نظر: ص ۷۴)
حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ بخاری شریف میں جہاں ’’ قال لی یا قال لنا‘‘