کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 41
اعظمی صاحب کا وہم ہے بلکہ جزء القراء ۃ میں حضرت سالم بن عبدالله بن عمر کی روایت ہے ۔ پھر کتاب القراء ۃ والا وہی نسخہ ہے جس کی ہم نے بحث کی ہے۔۔اس وہم کی بنیا دپر عبدالرزاق رحمہ اللہ میں بھی انھوں نے ’’ ان ابن عمر‘‘ جوڑ دیا۔ (ایک نظر :ص ۷۲) قارئین کرام ! غور فرمائیں جناب ڈیروی صاحب کیا فرما رہے ہیں۔ (۱)۔۔ جز ء القراء ۃ میں یہ حضرت سالم کا قول ہے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت نہیں۔ یہ اعظمی صاحب کا خبط ہے کہ اسے ابن عمر بنا دیا ۔ (۲)۔۔اور’’ ان ابن عمر‘‘ جوڑنے میں بھی ان کا وہم ہے گویا مصنف عبدالرزاق میں اعظمی صاحب نے تحریف کردی۔ مگر ڈیروی صاحب نے بالکل غور و تاء مل سے کام نہیں لیا۔ کتاب میں اگر ناسخ یا کاتب کی غلطی سے غلط لکھا گیا توا سے حرف آخر سمجھ کر اس کو رائی کا پہاڑ بنا دیا جیسا کہ آپ پہلے پڑھ آئے ہیں اور آئندہ بھی ان شاء الله اس کی کئی مثالیں آئیں گی۔جزء القراء ۃ (ص ۷) کے الفاظ ہیں ’’ ینصت للامام فیما جھر‘‘ اوراس میں فی الواقع حضرت سالم رحمہ اللہ کا قول ہے ۔ حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کا نہیں۔ مگرمصنف میں معمولی اختلاف سے یہی الفاظ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہیں۔ غالباً اس بنا پر مولانا اعظمی رحمہ اللہ نے یہی سمجھا کہ جزء القراء ۃ میں یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ہی قول ہے۔ اس میں جو سالم بن عبدالله بن عمر ہے کاتب کی غلطی ہے ۔ا نھیں اس کی وضاحت کر دینا چاہیے تھی، تاکہ کوئی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتا، جیسا کہ ڈیروی صاحب مبتلا ہیں۔ یہ ناکارہ عرض کرتا ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی جزء القراء ۃ ہی کے حوالہ سے یہ روایت کتاب القراء ۃ (ص ۱۴۷)میں ذکر کی اور وہاں سالم بن عبدالله عن ابن عمر ہی نقل کیا ہے۔ جو اس بات پر برہان ہے کہ جزء القراء ۃ میں یہاں ناسخ کی غلطی ہے اوراسی غلطی میں مبتلا ہو کر جناب ڈیروی صاحب دوسروں کی غلطیاں نکال رہے ہیں۔ ماشاء الله۔ (۳)۔۔اسی طرح جناب ڈیروی صاحب کا یہ کہنا کہ مولانا اعظمی نے ان ابن عمر جوڑ دیا۔ یہ بھی سراسر دھوکا ہے ۔ مولانا اعظمی نے کتاب القراء ۃ کی بنیاد پر قطعاً ’’ ان ابن