کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 40
تحقیق الکلام (ج ۲ ص ۱۶۱) کے حوالہ سے ان ابن عمر بنادیا۔ (ایک نظر: ص ۷۲) کوئی ان سے پوچھے کہ حضرت ! شیخ مکرم دام مجدھم نے کتاب القراء ۃ سے ’’ ان ابن عمر‘‘ کیوں نقل کیا ؟ ،مبارک پوری صاحب کے نقل کرنے پر ’’ عن ابن عمر‘‘ ہی رہنے دیا ہوتا ، نہ انھوں نے گرفت کی، نہ ’’ عن ابن عمر‘‘ ہی لکھا بلکہ الٹا ’’ ان ابن عمر‘‘ لکھ دیا۔ یہی لکھ کر تواثری خائن بن گیا۔ مگر شیخ مکرم صاف ستھرے رہے؟ بلکہ یہ بات بھی کتنی عجیب ہے کہ ’’کتاب القراء ۃ و تحقیق الکلام کے حوالہ سے ’’ان ابن عمر‘‘ بنا دیا‘‘ ڈیروی صاحب تو فرماتے ہیں کہ کتاب القراء ۃ میں ’’أو ابن عمر‘‘ ہے اور تحقیق الکلام میں ’’عن ابن عمر‘‘ ہے ۔ اب اس کے برعکس ’’حضرت شیخ مکرم‘‘ نے ’’ ان ابن عمر‘‘ بنا دیا ہے تو کس کے حوالے سے ہوا؟ لہٰذا یہ کہنا کہ کتاب القراء ۃ اور تحقیق الکلام کے حوالہ سے ’’ ان ابن عمر‘‘ بنا دیا ہے ،سراسر غلط اور دھوکانہیں کیا تو اور کیا ہے؟ اور حضرت شیخ مکرم نے ’’ ان ابن عمر‘‘ بنا دیا ہے تو یہ تحریف اور خیانت نہیں؟ ؎ اے چشم اشکبار ذرا دیکھ تو سہی ہوتا ہے جو خراب کہیں تیرا ہی گھر نہ ہو نواں دھوکا مولانا اعظمی رحمہ اللہ پر بہتان حضرت ڈیروی صاحب فرماتے ہیں: مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہ اللہ تو عجیب خبط میں پڑے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت مصنف عبدالرزاق (ج ۲ ص ۱۳۹) میں ذ کرکرنے کے بعد حاشیہ میں لکھتے ہیں:’’ ذکرہ البخاری تعلیقًا فی جزء القراء ۃ واخرجہ ھق فی کتاب القراء ۃ من طریق عبدالرزاق ولفظہ أن ابن عمر کان ینصت۔۔‘‘ حالانکہ امام بخاری نے ابن عمرکی روایت کو معلقاً ذکر نہیں کیا۔ یہ