کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 389
علامہ کشمیری رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں: واعلم ان الفتوی قد یکون علی الاقوی دلیلًا و قد یکون علی الارفق بالناس و قد یکون علی الموافق بعرف بلدۃ و قد یکون علی الاوفق بالحدیث و قد یکون علی الموافق لامام من الائمۃ المجتہدین۔ (العرف الشذی : ص ۱۲۲) ’’کہ فتویٰ کبھی قوی دلیل کی بنا پر ہوتاہے، کبھی لوگوں کی سہولت کے مطابق ہوتا ہے ، کبھی شہر کے عرف کی بنا پر، کبھی حدیث کی موافقت کی بنا پر اور کبھی ائمہ مجتہدین میں سے کسی امام کے قول کے مطابق ہوتا ہے۔‘‘ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ دن اور رات کی نفلی نمازوں میں چار رکعتیں اکٹھی پڑھنا افضل قرار دیتے ہیں ۔ دلیل کی بنا پر علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے صاحبین کے قول کو راجح قرار دیا ہے اور فرمایا کاش! امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول بھی ان کے موافق مل جاتا۔ مگر تتبع بسیار کے باوجود ایساکوئی قول ان سے نہیں ملتا۔ ولووجدت عنہ لرجحت و لو شاذۃ اگرمل جاتا تو میں اس کو ترجیح دیتا اگرچہ وہ شاذ ہی ہوتا۔(العرف الشذی: ص ۱۹۶،۱۹۷) ڈیروی صاحب ان حقائق سے یقینا واقف ہوں گے ۔ اس لیے اس مسئلہ میں بس ظاہر الروایہ کا سہارا بے معنی ہے۔ جن حنفی حضرات نے امام محمد رحمہ اللہ کے قول کو اختیار کیا ۔ وہ گو ظاہر الروایہ کے خلاف ہے مگردلیل کی بنا پر ہی اسے راجح قرار دیا بلکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے سری میں قراء ت کے مکروہ ہونے کے دعویٰ کی حقیقت علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے یہ کہہ کر کہ یہ ان سے ثابت ہی نہیں واضح کر دی ہے۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: لم أرفی نقل عن الامام ان القراء ۃ فی السریۃ لا تجوز۔ (فیض الباری : ۲ /۱۰۵) ’’کہ امام صاحب سے کوئی روایت ایسی نہیں دیکھی کہ انھوں نے فرمایا ہو کہ سری میں مقتدی کے لیے قراء ت جائز نہیں‘‘بلکہ انھوں نے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے جہری میں تو قراء ت سے منع کیا ہے مگر اجازبھا فی السریۃ سری میں پڑھنے کی اجازت دی ہے(فیض الباری: ۲؍۲۷۲) اس لیے یہ موقف اگر بعض علمائے احناف نے اختیار کیا