کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 387
اور ’’ الذخیرہ‘‘ میں ہے کہ اگر مقتدی نماز میں خلف الامام پڑھے جس میں قراء ت واجب نہیں ، اس میں مشائخ کا اختلاف ہے ۔ ابوحفص جو ہمارے حنفی مشائخ میں سے ہیں نے فرمایا ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کے قول کے مطابق یہ مکروہ نہیں۔ یہ ابوحفص رحمہ اللہ جن کا نام احمد بن حفص ہے امام محمد رحمہ اللہ کے کبار تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ خود بھی سری میں فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے(امام الکلام ص ۴۶ وغیرہ)’’الذخیرہ‘‘ کے مصنف علامہ محمود بن احمد کا شمار کبار ائمہ حنفیہ میں ہوتا ہے اور علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: قد طالعت الذخیرۃ وھو مجموع نفیس معتبرا ۔(الفوائد البھیۃ : ص ۸۵) میں نے الذخیرہ کا مطالعہ کیا ہے اور یہ نفیس معتبر مجموعہ ہے۔ الذخیرہ دراصل انہی کی کتاب المحیط البرہانی کا اختصار ہے اور ان دونوں کے بارے میں حاجی خلیفہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے : کلاھما مقبولان عند العلمائ کہ یہ دونوں علماء کے ہاں مقبول کتابیں ہیں۔(کشف الظنون:۱؍۸۲۳) امام محمد رحمہ اللہ کایہی قول ہے۔ علامہ محمود رحمہ اللہ سے بہت پہلے فقیہ ابواللیث السمرقندی الحنفی جو امام الہدی کے لقب سے پکارے جاتے ہیں ، نے بھی فتاویٰ النوازل (ص ۴۴) میں نقل کیا ہے۔ لہٰذا ڈیروی صاحب نے علامہ مختار رحمہ اللہ معتزلی حنفی کی کتاب المجتبی شرح مختصر القدوری کے غیر معتبر ہونے کے بہانے جو اس قول کا انکار کیا ان کی روایتی دھوکا بازی کا نتیجہ ہے۔ مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے تنہا علامہ الزاہدی رحمہ اللہ کی روایت پر اعتماد نہیں کیا بلکہ صاحب ہدایہ، صاحب الذخیرہ کے اقوال بھی اس کے ساتھ ذکر کیے ہیں۔ اس بنا پر انھوں نے اس قول کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام ابوحفص کبیر رحمہ اللہ جو براہ راست امام محمد رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں جب وہ فرماتے ہیں کہ ’’ لا یکرہ فی قول محمد‘‘ تواس کے بعد اس کا ا نکار اور ’’ یروی‘‘ کا بہانہ یہ کہ صیغہ تمریض ہے جو علامہ مرغینانی رحمہ اللہ کی بظاہر عبارت پر ہے ) محض مجادلہ ہے۔ بلکہ ہم تو حضرت شاہ شہید کے حوالے سے بھی نقل کر آئے ہیں کہ المبسوط میں امام محمد رحمہ اللہ کا قول میں نے خود دیکھا ہے اور علامہ الحلبی رحمہ اللہ نے بھی امام محمد رحمہ اللہ کے اس قول کو تسلیم کیا ہے(غنیہ ص ۵۲۷)۔ علامہ کشمیری رحمہ اللہ