کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 385
اپنے مذہب کو سہارا دینے کے لیے ذکر کی ہے۔۔۔ من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار یہ متواتر حدیث ہے ۔ الله تعالیٰ مذہبی تعصب سے محفوظ رکھے۔‘‘(ایک نظر: ص ۱۲۹) گویا امام بیہقی رحمہ اللہ نے قصداً ایسا کیا او روہ معاذالله اس حدیث کا مصداق ہیں حالانکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے باب الدلیل علی ان لا صلاۃ الا بقراء ۃ ۔ الخ میں یہ روایت پانچویں نمبر پر ذکر کی ہے اور اس سے پہلے جو روایات ہیں وہ صحیح مسلم وغیرہ کی ہیں اور انہی پر ان کا استدلال ہے۔ اسی باب کے آخر میں ایک اور روایت امام بیہقی رحمہ اللہ نے بیان کی جسے ڈیروی صاحب نے ذکر کیا اور فرمایا: ’’امام بیہقی رحمہ اللہ عجب کارنامے سرانجام دے رہے ہیں۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ اس میں ابراہیم بن الفضل المدنی متروک ہے۔ ایسے متروک اور گھسے پڑے راویوں سے دین حاصل کیا جا رہا ہے۔ ‘‘ (ایک نظر: ص ۱۴۰،۱۴۱) ڈیروی صاحب کا اسلوب نگارش دیکھیے اور ائمہ محدثین کے خلاف ان کے بغض و عناد اور بدزبانی کا اندازہ کیجیے۔ جس روایت سے دین لیا ہے وہ صحیح مسلم کی ہے اور حضرت ابوہریرہ کا فتویٰ ہے۔ان روایات کو ذکر کرنے کا مقصد ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اس قسم کے اعتراضات محدثین کے اسلوب سے بے خبری اور ان سے عناد کا نتیجہ ہے۔ اسی نوعیت کی دوسری روایات پر ڈیروی صاحب کی ہرزہ سرائی بھی اسی لاعلمی کا سبب ہے۔ اگر یہ چیز مورد طعن ہے تواس سے نہ اصحاب المسانید محفوظ ہیں اور نہ ہی معاجم و اجزاء مرتب کرنے والے محفوظ ہیں۔ بلکہ ابواب پر مرتب و متداول کتب بھی اس الزام سے محفوظ نہیں حتی کہ جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں بھی بے اصل اور موضوع روایات پائی جاتی ہیں ۔ حافظ ابن جوزی نے خطیب بغدادی سے عصبیت کی بنا پر اعتراض تو کر دیا مگر یہ بات بھول گئے کہ خود انھوں نے مسند امام احمد، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ کی روایات کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔ یہ بات اگر خطیب کے لیے باعث نقد و تبصرہ ہے تو یہ محدثین بھی اس سے محفوظ نہیں،