کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 384
جراً اذا ساقواالحدیث باسنادہ اعتقدوا انھم برؤا من عھدتہ۔ (لسان المیزان:ج ۳ ص ۷۵، اللآلی المصنوعۃ ج ۱ ص ۱۹) یعنی یہ معاملہ امام طبرانی رحمہ اللہ کے ساتھ خاص نہیں۔ اس لیے ان پر ان روایات کی بنا پر اعتراض بے معنی ہے ۔ بلکہ اکثر محدثین دوسری صدی کے بعد سے جب حدیث کی سند ذکر کر دیتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ اسی طرح علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کے اپنی روایتی سختی کی بنا پر خطیب بغدادی رحمہ اللہ پران کی ’’ کتاب الجھر بالبسلمۃ‘‘ا ور ’’ کتاب القنوت‘‘ کی بنا پر اعتراضات معروف ہیں۔ علامہ عبدالرحمن المعلمی رحمہ اللہ انہی کے جواب میں لکھتے ہیں: ان الخطیب ان کان قصد بجمع تلک الرسائل جمع ما ورد فی الباب فلا احتجاج و إن کان قصد الاحتجاج فبمجموع ما أوردہ لا بکل حدیث علی حدۃ۔ (التنکیل: ج۱ ص ۱۴۳) ’’کہ اگر خطیب بغدادی کا مقصد ان رسائل میں اس باب کی روایات کو جمع کرنا ہے تو پھر کوئی اعتراض و احتجاج نہیں اور اگر ان کا ارادہ احتجاج و استدلال ہے توان روایات کے مجموعہ سے ہے ۔ ہر حدیث سے استدلال مراد نہیں ۔ ‘‘ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی نماز میں بسم الله جہراً پڑھنے پر رسالہ لکھا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس سے ان کا مقصدا س باب کی مرویات کو جمع کرنا ہے۔ (مجموع الفتاویٰ : ج۱ ص ۷۶،۷۷) علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی تعلیق التنکیل میں شیخ الاسلام کا یہ کلام نقل کیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ محدثین کرام جب کسی ایک مسئلہ پر کوئی رسالہ لکھتے ہیں تواس سے متعلقہ تمام روایات کو وہ جمع کر دیتے ہیں۔ ہر ہر روایت سے استدلال مقصود نہیں ہوتا۔ یہی اسلوب امام بیہقی کا ہے۔ مگر جناب ڈیروی صاحب کتاب القراء ۃ میں ایسی روایات پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’حقیقت یہ ہے کہ حضرت بیہقی رحمہ اللہ نے جان بوجھ کر یہ جھوٹی روایت